عالمی یوم القدس کی بقا کا راز؛ امام خمینی(رہ) کی دوراندیش پالیسی میں مضمر


عالمی یوم القدس کی بقا کا راز؛ امام خمینی(رہ) کی دوراندیش پالیسی میں مضمر

جیساکہ امام خمینی (رہ) نے رمضان المبارک کے آخری جمعے کو تمام مسلمانوں کیلئے یوم القدس کے عنوان سے منانے کا اعلان 1980ء میں کیا تھا لیکن 37 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود یہ تاریخی دن ہر سال انتہائی جوش و جذبے کیساتھ منایاجاتا ہے اور اس کی اہمیت بتدریج بڑهتی جا رہی ہے

تسنیم نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران میں یوم القدس کا انعقاد ہر سال رمضان کے مبارک مہینے کے آخری جمعے میں جلوسوں اور ریلیوں کی شکل میں کیا جاتا ہے۔

ایرانی عوام یہ دن فلسطینی عوام کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے مناتے ہیں اور اس طرح دوسرے مسلمان ممالک بشمول لبنان، انڈونیشیا، ملائیشیا، پاکستان، ترکی، بحرین، عراق اور غیر اسلامی ممالک بالخصوص امریکا اور انگلینڈ میں بھی یہ دن فلسطینیوں کیساتھ اظہار یکجہتی کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ دن کس طرح ایران کی حدود سے نکل کر عالمی یوم القدس میں تبدیل ہوگیا جسے دنیا کے مختلف ممالک میں عوام، این جی اوز، سیاسی پارٹیوں اور حتی سیاسی گروہوں کی طرف سے گزشتہ سالوں کی نسبت زیادہ جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور دنیا کے مختلف اقوام کیوں اس دن کے منانے میں دلچسپی لیتی ہیں؟

اس بنیادی سوال کے جواب میں متعدد دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن اس کالم میں مختصرا کچھ اہم دلیلوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

1۔  یوم القدس کے عالمی دن کا ہر سال بھرپور انداز سے منعقد ہونے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امام خمینی(رہ) نے استکبار اور قابض حکومتوں کے ساتھ مقابلے کیلئے ایسی مناسب حکمت عملی اپنائی ہے جس کی اسٹرٹیجک نگاہ ہر دوسرے سال کیلئے دقیق تر اور عمیق تر ہوتی جا رہی ہے۔

2۔ انقلاب اسلامی ایران کے بانی اس بات پر مطمئن تھے کہ امریکی پیٹووں کے ساتھ ہر قسم کا مقابلہ وائٹ ہاوس کی جاہ طلب پالیسیوں کیساتھ مقابلے کے مترادف ہے اس لئے یہ مقابلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔

3۔  مسکینوں اور مستضعفین کا امداد امام خمینی کی نگاہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول تھا اور یہ پالیسی انقلاب اسلامی کی کامیابی سے 38 سال گزرنے کے بعد بھی انکے پیروکاروں کی طرف سے جاری ہے۔

4۔ امام خمینی کی ایک اسلامی ریاست کو غاصب اور جارح حکومت سے نجات دلانے کیلئے دوراندیشی ایک ایسا نکتہ ہے جو بدترین جارحیت کے رجحان کی وجہ سے ساری دنیا میں رائے عام کے توجہ کا سبب بنا ہوا ہے اوراس نکتہ نظر کی ہر سال یوم القدس کے انعقاد سے تصدیق ہو تی ہے۔

5۔ عالمی یوم القدس مسلمانوں اور اسلامی ممالک کی صیہونی حکومت کی دھمکی آمیز پالیسیوں کے مقابلے میں طاقت کے اظہار کا دن ہے اور امام خمینی نے اسلئے اس دن کو اسرائیل کے مقابلے میں امت مسلمہ کی عزت، وقار، طاقت اور عظمت کی واپسی کا دن ٹھرایا ہے۔

6۔ صیہونی حکومت انقلاب اسلامی سے چند دہائی قبل عرب اور غیر عرب حریفوں کو دبانے اور شکست دینے کی پالیسی پر گامزن تھا جس کا نتیجہ اسرائیل کے عربوں کیساتھ چار جنگوں کی صورت میں نکل آیا لیکن امام خمینی کو اس بات پر اطمینان تھا کہ صیہونیوں کیساتھ مقابلے کیلئے ایک نئی روح کا آغاز کیا جائے جس کی بنیاد معنویت پر ہو۔ اس لئے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ قابض زمینوں پر اسرائیل کے خلاف صرف اور صرف اعتقادی مقاومتیں تشکیل پائی ہیں اور آج فلسطینی عوام تل ابیب کے خلاف ایک غالب مزاحمت فرنٹ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

 7۔ چند دہائیوں کے شکست اور اختلاف کے بعد اسرائیل کے خلاف اسلامی ہماہنگی عالمی یوم القدس کے اہداف میں سے ایک ہے جس کے بارے میں امام خمینی نے فرمایا: اگر مسلمان ایک ایک بالٹی پانی صیہونی حکومت پر ڈال دیں تو یہ پانی میں بہہ جائیگی۔

8۔ امام خمینی کی نگاہ میں اسرائیل کے ساتھ مسلمانوں کا تصادم ایک بنیادی اصول ہے کیونکہ یہ غاصب حکومت ہمیشہ سے امت مسلمہ کو تباہ و برباد اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے اور اس لئے صیہونیوں کے ساتھ مقابلہ اور تصادم وقت کی ضرورت ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ امام خمینی کی اپنے دور میں جدت طرازی نے دنیا والوں کو اسرائیل کے ساتھ مقابلہ کرنے کا عظیم نکتہ پیش کیا جس کا ایک اہل اثر پڑا ہے اور یہ عمل ہو سکتا ہے ((اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹایا جائے)) پر اختتام پذیر ہو۔ 

ڈاکٹر حسن لاسجردی مغربی ایشیاء کے مسایل کا ماہر

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری