کیا سعودی عرب، پاکستان سے جوہری ہتھیار خریدنے کے درپے ہے؟


کیا سعودی عرب، پاکستان سے جوہری ہتھیار خریدنے کے درپے ہے؟

جمعیت علمای اسلام (ف) کے سربراہ نے ایسی حالت میں سعودی عرب کے ایٹمی طاقت بننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ امریکی دفاعی حکام نے کچھ عرصہ پہلے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ریاض حکومت اسلام آباد سے ایٹمی ہتھیار خریدنے کے درپے ہے

پاکستانی کالم نگار فرحان مہدوی نے اپنے تجزیے میں سعودی عرب کے ایٹمی طاقت بننے کے بارے میں لکھا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے حامی ایسے حالات میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کے خلاف آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ ان دو ممالک کی دیرینہ دوستی بین الاقوامی سطح پر عیاں ہے اور جسے رد کرنا ایک حقیقت سے روگردانی کے مترادف ہوگا۔

پاکستانی کالم نگار نے اپنے تجزیے کو کچھ یوں قلمبند کیا ہے:

جمعیت علمای اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے مطابق، مغرب کی جارحیت کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے سعودی عرب  کوایٹمی قوت بننا چاہئے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز منعقد ہونے والی دفاع خادم حرمین شریفین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس نقطہ پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام اور خصوصأ سعودی ریاست کے خلاف ہونے والے مغربی پروپیگنڈہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام مسلمان مستقبل میں سعودی عرب کوایٹمی قوت کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حرمین کا دفاع پوری امت کی مشترکہ ذمہ داری ہے لہذا مغربی جارحیت کے خلاف تمام مسلم ممالک کو متحد ہو جانا چاہئے۔

دریں اثنا، مولانا سمیع الحق نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حرمین پر حملے کو ہمارے ایمان پر حملہ سمجھا جائے گا۔

جمعیت علمای اسلام (سمیع الحق گروہ) نے مزید کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے خلاف ہونے والے مغربی پروپیگنڈہ کو بے نقاب کیا جائے۔  

سمیع الحق نے مسلمان لیڈروں کے مغرب کی مذموم سازشوں کے خلاف متحد ہونے پر بھی زور دیا۔

یہ ایسے حالات میں ہے کہ سعودی عرب خطے میں امریکہ کا اہم اتحادی سمجھا جاتا ہے۔

امریکی فوج نہ صرف یمن مسئلے کی خاطر بلکہ بہت پہلے سے سعودی عرب میں اپنے ڈھیرے لگائے ہوئے ہیں۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سعودی عرب، امریکہ کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے اور خطے کے سارے معاملات کو باہمی مشاورت سے حل کرتے ہیں۔

اس کی تازہ مثال امریکہ کی سعودی عرب کے ساتھ یمن جنگ میں تعاون ہے جن کے افواج اس ملک کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ سنڈے ٹایمز نے کچھ عرصہ پہلے ایک سابق امریکی دفاعی عہدیدار کے حوالے سے بتایا تھا کہ عین ممکن ہے کہ سعودی عرب، ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق مذاکرات کی وجہ سے پاکستان سے جوہری ہتھیار خریدنے کے لئے کوششوں کا آغاز کرے۔

برطانوی اخبار سنڈے ٹایمز نے مزید لکھا کہ اس امریکی دفاعی عہدیدار نے سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ ہے اور سعودی شاہی خاندان نے پہلے ہی پاکستان سے جوہری ہتھیار منتقل کرنے کا اسٹریٹجک فیصلہ کر لیا ہے۔

اس امریکی عہدیدار نے ایک سوال کے جواب میں کہ "کیا سعودی عرب ایٹمی طاقت بننا چاہتا ہے"، نے کہا: اس بات کو صرف ایک "فرض سمجھنا" چاہئے۔

امریکی دفاعی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ سینکڑوں سی آئی اے اہلکار اس مشن پر مامور ہیں اور جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ "کیا پاکستان نے اپنی جوہری ٹیکنالوجی سعودی عرب کو منتقل کی ہے یا نہیں".

اسی طرح نیویارک ٹایمز نے بھی عرصہ پہلے ایک رپورٹ میں سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ ترکی الفیصل کے حوالے سے بتایا تھا کہ جوہری پھیلاؤ کے دروازے ایران اور مغرب کے درمیان موافقت کی وجہ سے کھل سکتے ہیں۔   

زیادہ تعداد میں دوسرے ماہرین من جملہ دو سابق امریکی وزیر خارجہ، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سابق عہدیدار اور معروف میگزین فارن پالیسی کے ایڈیٹر نے بھی عرصہ پہلے خبردار کیا تھا کہ ایران اور مغرب کے درمیان معاہدہ مشرق وسطی میں جوہری پھیلاؤ  کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ ایسے حالات میں ہے کہ سعودی حکام ایسے الزامات کو یکسر مسترد کرتے آ رہے ہیں۔

پاکستانی اخبار ڈیلی پاکستان نے عرصہ پہلے سعودی دفاعی حکام کے حوالے سے مغربی میڈیا کی رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ ایسی خبریں گزشتہ 18 سالوں سے میڈیا میں گھوم رہی ہیں جن کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

پاکستانی اخبار نے لکھا کہ ان خیالات کا اظہار ایک سعودی دفاعی عہدیدار نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا ہے اور کہا ہے کہ سعودی عرب کا پاکستان سے جوہری ہتھیار خریدنے کی خبریں بین الاقوامی میڈیا کی قیاس آرائیاں ہیں۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی اور سعودی حکام، فضل الرحمن کے اس بیان کے رد عمل میں کیا کہتے ہیں جس کا انتظار کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہیں۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری