حلب میں دہشت گردوں کے ساتھ امریکی اور صہیونی انٹیلی جنس تعاون


حلب میں دہشت گردوں کے ساتھ امریکی اور صہیونی انٹیلی جنس تعاون

شامی فوج کے بریگیڈیئر اور جنگی امور کے ماہر نے دہشت گردوں کی طرف سے حلب کے مشرقی علاقے کی طرف نکالی گئی تنگ سرنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب کچھ شامی فوج کے محاصرے کے دوران، ترک، اسرائیل اور امریکی افسران کی جانب سے انٹیلی جنس تعاون سے ہوا ہے۔

''ہیثم حسون'' نے تسنیم نیوز ایجنسی کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ "جیش الفتح" نامی دشت گرد ٹولے کی جانب سے ''حلب کی آزادی'' کےلئے شامی فوج کے ساتھ جنگ شروع کرنے کی خبر صرف میڈیا کی غلط تبلیغات ہیں، اس قسم کی خبروں کا مقصد صرف دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حلب کی  جنگی صورتحال بکھری اور پراکندہ لڑائی کے بجائے ایک مسلسل جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے۔

دہشت گرد پچھلے دس دنوں کے دوران شامی فوج کی دفاعی لائن کے قریب آنے میں کامیاب ہوگئے ہیں لیکن شامی فوج نے ایک حکمت عملی کے تحت ایک نئی دفاعی لائن کا انتخاب کیا ہے تاکہ ہر قسم کی ناگہانی اور ممکنہ حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔

حسون نے جیش الفتح کی طرف سے حلب کی آزادی کے لئے نئی جنگ کے اعلان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف دہشت گرد عناصر کی طرف سے اپنی حوصلہ افزائی کے لئے چلائی ہوئی ایک خبر ہے ورنہ شامی فوج نے دہشت گردوں کو سخت مالی اور جانی نقصان پہنچایا ہے۔

شامی فوج کی طرف سے بعض جنگی چوکیاں خالی کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے حسون کا کہنا تھا کہ مورچوں کا خالی کرنا ایک جنگی حکمت عملی تھی کیونکہ دہشت گرد گزشتہ پانچ دنوں میں تربیت یافتہ خود کش بمبار شامی فوج کے مورچوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ایسی حالت میں شامی فوج کے پاس دو ہی راستے تھے، ایک یہ کہ وہ مورچوں میں رہ کر دہشت گردوں کے محاصر میں آجاتے کہ اس صورت میں فوج کو سنگین نقصانات اٹھانی پڑتیں اور دوسرا راستہ یہ تھا کہ ان مورچوں کو خالی کرکے نئے مورچے سنبھالےجائیں اور دہشت گردوں کو رہائشی علاقوں میں جا کر چھپنے سے روک لیں۔

شامی فوج نے حلب کے جنوب مغرب میں ایک نئی حکمت عملی کے تحت جدید جنگی لائن کا انتخاب کیا ہے تاکہ دہشت گردوں کے حملوں کو پسپا کرکے ان کو فوجی چوکیوں کے قریب آنے سے روکا جا سکے۔

شامی فوجی امور کے ماہر نے حلب کے محصور شدہ علاقوں سے غیر ملکی شہریوں اور ترک فوجی افسران کے علاوہ دوسرے عرب ملکوں کے باشندوں کا حلب کے مشرقی مضافاتی رہائشی علاقوں میں چھپنے کے بارے میں بھی کہا کہ اس قسم کی خبریں سوشل میڈیا میں گردش کررہی ہیں اور بعید بھی نہیں ہے کیونکہ امریکہ اور ترکی نے مل کر جنگی رہنمائی کے لئے باقاعدہ آپریٹنگ روم کا آغاز ہے اور "احرار الشام"، جیش الفتح اور "النصرہ فرنٹ" کے لئے جنگی اطلاعات مہیا کی جارہی ہیں۔

حسون نے مزید کہا کہ امریکی اینٹلی جنس ادارہ شام میں''شامی ڈیموکریٹک فورسز'' نامی دہشت گرد تنظیم کی بھی حمایت کرتا ہے۔ یہ وہی گروہ ہے جس کے ذریعے حلب کے علاقے ''الراشیدین اربعہ'' میں دوسرے باغی گروہوں کی مدد کروائی گئی اور بعد میں شامی فوج کی چوکیوں تک دہشت گردوں کو پہنچانے میں اس گروہ سے استفادہ کیا گیا۔

دہشت گردوں کی وحشیانہ طرز عمل اور ان کے حامی ملکوں کی شامی فوج کی جانب سے پیش قدمی کو روکنے اورعلاقے کا محاصرہ ختم کروانے کے لئے حلب کے رہائشی علاقوں میں موجود ترکی، امریکی، اسرائیلی اور یورپی ممالک کی انٹیلی جنس تعاون سے دہشت گردوں کی مدد کی جارہی ہے تاکہ شامی فوج کو علاقہ فتح کرنے سے روکا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بعض دہشت گرد ایک چھوٹی سرنگ کے ذریعے محاصرے سے نکل کر رہائشی علاقوں میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سرنگ سے صرف لوگ ہی بڑی مشکل سے عبور کرسکتے ہیں اور کسی قسم کی جنگی سازسامان کی منتقلی کا امکان نہیں ہے کیونکہ یہ علاقہ مکمل طور پر شامی فوج کے نشانے پر ہے۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری