اردوغان - پیوٹن ملاقات سے مغرب پریشاں/ جرمن اخباروں کے مختلف تجزیے


اردوغان - پیوٹن ملاقات سے مغرب پریشاں/ جرمن اخباروں کے مختلف تجزیے

ترکی میں 15 جولائی کو ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد اردوغان کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ یہ دورہ جہاں دنیا میں ترکی کا امریکہ سے روگردانی کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اس دورے نے وہیں مغربی سیاستدانوں کی نیندیں بھی حرام کر دیں ہیں ۔

تسنیم نیوز خبر رساں ادارے کے مطابق، اردوغان - پیوٹن ملاقات نہایت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ روس اور ترکی کے درمیان تعلقات کافی عرصے سے تعطل کا شکار تھے، خاص طور پر حالیہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی کے یورپ کے ساتھ تعلقات نہایت سردمہری کا شکار ہوچکے ہیں، اس حالت میں اردوغان کا اس بغاوت کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے روس کے انتخاب نے یورپی سیاستداوں کو پریشاں کردیا ہے۔

جرمن ذرائع ابلاغ نے اردوغان - پیوٹن ملاقات سے متعلق مختلف تجزیے پیش کئے ہیں۔ یہاں پر قارئین کو کچھ روزناموں کی جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں:

روزنامہ''زوڈویچے سایٹونگ'' نے لکھا ہے کہ اردوغان کا روسی دورہ امریکہ سے منہ موڑنے کی علامت ہے۔

جرمن اخبار نے تجزیے میں لکھا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد طیب اردوغان کا اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے روس کا انتخاب اس ملک کی خارجہ پالیسی کی تبدیلی کی واضح علامت ہے کیونکہ اردوغان واشنگٹن سے "فتح اللہ گولن" کو ترکی کے حوالے نہ کرنے پر سخت ناراض ہے۔

روزنامہ ''ہینڈلزبلاٹ'' نے اردوغان - پیوٹن ملاقات کو ایک انتباہ قرار دیا اور کہا ہے کہ ترکی کا روس کے قریب ہونا یورپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

اس روزنامے نے یورپ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یورپ کو چاہئے کہ ترکی کی بےجا مذمت کرنے کے بجائے اپنی طرف جلب کرنے کی کوشش کرے۔

جرمن اخبار ''جنرل انسایگر'' نے پیوٹن - اردوغان ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ترک - روس مصالحت قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ کئی مہینوں سے روس - ترک تعلقات نہیات سردمہری کا شکار تھے۔ اب پہلی بار دونوں رہنماؤں کے درمیان اہم ملاقات ہوئی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیٹو کے اہم رکن ملک نے اپنے لئے نئے سیاسی راستے کا انتخاب کیا ہے؟

ترکی نے نومبر کے آخر میں ایک روسی جنگی طیارہ شام کے سرحد کے قریب مار گرایا تھا جس کی وجہ سے ماسکو نے انقرہ کے خلاف ایک قرارداد منظور کی تھی اور جون کے اواخر میں اردوغان نے روس سے معذرت کرلی تھی۔

ترک حکام نے اردوغان کے روس دورے سے پہلے ہی ترکی کے نیٹو سے خارج ہونے پر مبنی ان تمام شکوک وشبہات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

جرمنی کے وزیر خارجہ "فرینک والٹر سٹین مائر" نے کہا ہے کہ ترکی نیٹو کا بہت اہم رکن ہے۔

انہوں نے روزنامہ ''بلد''  سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترکی اور روس کے درمیان قربت پیدا ہونا بہترین پیشرفت ہے تاہم روس اور ترکی کے درمیان ایک متبادل سیکیورٹی سمجھوتہ طے پائے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

جرمن اخبار "هینوفرشه آلگماینے سایٹنگ" نے اردوغان - پیوٹن ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ملاقات ایک سخت اور لمبی سیاسی بحران کے خاتمے کا سبب بنے گی۔

جرمنی کے معروف تاریخ دان "مائکل وولف سوهان" کا کہنا ہے کہ پیوٹن، روس اور ترکی کو ایک دوسرے کے قریب کرکے یورپی یونین اور نیٹو کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔

ہفت روزہ میگزین'' اشپیگیل'' نے بھی ترک - روس رہنماؤں کی ملاقات پر تبصرہ کیا اور لکھا کہ ترک صدر یہ سجمھتا ہے کہ امریکی جنرلوں، سی آئی اے اور یورپ کی طرف سے ان کی توہین ہوئی ہے لہٰذا ناکام فوجی بغاوت کے بعد انہوں نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سب سے پہلے روس کا انتخاب کیا ہے۔

ہفت روزہ میگزین نے مزید لکھا ہے کہ ترکی میں 15 جولائی کو ہونے والی ناکام بغاوت ترکی اور روس کے درمیان قربت کا باءث بنا ہے۔

ہفت نامے کے مطابق، پیوٹن اور اردوغان کے مشترکہ مفادات ہیں اور دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ، نیٹو اور سی آئی اے نے ان کی توہین کی ہے۔

مشرق میں نیٹو کی سرگرمیوں پر ترک صدر سخت نالاں ہیں۔

واضح رہے کہ ترکی میں 15 جولائی کو ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد اردوغان یورپی اور اس کے اتحادیوں سے سخت ناراض ہے۔

سوئیس کےوزیرخارجہ کے خیال کے مطابق، 15 جولائی کو ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد یورپ ممالک کو اردوغان کی پہلے سے زیادہ حمایت کرنی چاہئے۔

ان کے بقول، ناکام بغاوت کے بعد اردوغان کی پہلی غیر ملکی سفر میں روس کا انتخاب کرنا یورپ کے لئے رسوائی کا باعث ہے۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری