امام رضا (ع) کی امامت کی توصیف کرنے والی معروف ترین حدیث

امام رضا (ع) کی امامت کی توصیف کرنے والی معروف ترین حدیث

امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث، جو علماء کے نزدیک امامت کی توصیف کرنے والی بہترین روایت کے طور پر جانی جاتی ہے، مختلف کتابوں جیسے؛ ''کافی''، ''تحف العقول''، ''معانی الاخبار'' وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

تسنیم خبررساں ادارے کے مطابق، امام رضا علیہ السلام ایک معروف و مشہور روایت کے ذریعے امامت کی تشریح بیان فرمارہے ہیں۔

یہ معروف روایت مختلف کتابوں جیسے؛ ''کافی'' ، ''تحف العقول''، ''معانی الاخبار'' وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

یہ روایت شیعہ علماء کرام کے نزدیک، امامت کی شان بیان کرنے والی بہترین روایات میں سے ایک ہے۔

اللہ تعالی کی وحدانیت اور توحید کی شناخت کے بعد امام شناسی کا مسئلہ اصول دین کے اہم ارکان میں سے ایک ہے کیونکہ اللہ کی وحدانیت اور توحید کا اقرار کا دارومدار اہل بیت عصمت و طہارت (ع) کی امامت کی شناخت پر ہے جب تک امامت صحیح معنوں میں سمجھ نہیں آئے گا تب تک توحید کا سمجھنا محال ہے۔

کتاب الکافی کی جلد نمبر1 صفحہ نمبر145 پر امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ: «بِنَا عُبِدَ اللَّهُ وَ بِنَا عُرِفَ اللَّهُ وَ بِنَا وُحِّدَ اللَّهُ‏ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى‏۔۔۔

ترجمہ و تشریح: ہماری وجہ سے ہی خدا کی عبادت کی جانے لگی اور ہمارے توسط سے ہی خدا کی پہچان ہوئی اورہمارے توسط سے ہی اللہ تبارک وتعالی کو یکتا مانا گیا۔

لہٰذا اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کی پہچان اور حقیقی عبودیت و معرفت خداوندی، اہل بیت عصمت و طہارت (ع) کے وسیلے سے ہی ممکن ہے اسی وجہ سے اہل بیت اطہار علیہم السلام  کی شناخت اور پہچان کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

امام رضا علیہ السلام نے ایک روایت کے ذریعے امامت کی شناخت کروائی ہے اور یہ روایت مختلف معتبر کتابوں جیسے اصول کافی، تحف العقول، معانی الاخبار کے علاوہ دیگر کتابوں میں بھی موجود ہے۔ علمائے حقہ کے نزدیک بہترین انداز میں امامت کی تشریح کرنے والی روایت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس روایت کو امام علیہ السلام نے جمعے کے دن ایک مسجد میں ارشاد فرمایا تھا۔

یہاں پر امام رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے اس روایت کے کچھ حصوں پر روشنی ڈالی جائےگی۔

امام رضا علیہ السلام امامت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «الْإِمَامُ کَالشَّمْسِ الطَّالِعَةِ الْمُجَلِّلَةِ بِنُورِهَا لِلْعَالَمِ وَ هِیَ فِی الْأُفُقِ بِحَیْثُ لَا تَنَالُهَا الْأَیْدِی وَ الْأَبْصَار۔۔۔

ترجمہ و تشریح: امام چمکتے سورج کی طرح ہوتا ہےکہ جب امامت کی نور انسان کی تاریک زندگی پر پڑتی ہے تو روشنی بخشتی ہے، جس طرح سورج کی کرنیں دنیا کی تاریکی کو ختم کرتی ہیں اسی طرح نور امامت کی کرنیں انسان کی زندگی کی تاریکیوں کو ختم کرتی ہیں۔ جس طرح سورج آسمان کی بلندیوں پر ہے اور کوئی بھی انسان اس تک نہیں پہنچ سکتا اسی طرح امام بھی مقام و فضیت کے اعتبار سے نہایت ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز ہے، کوئی بھی شخص امام کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا۔

امام رضا علیہ السلام نے امام کو سورج سے تشبیح دے کر یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ امام کا مقام نہایت بلند ہے، اس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا یعنی وہ عالی درجہ حاصل نہیں کرسکتا جو امام کوحاصل ہے۔ امام (ع) کائنات کی تمام مخلوقات کے لئے سورج کےکرنوں کی مانند ہے جو عام طور پر ساری کائنات کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ 

سورج کی خصوصیات میں سے ایک ہر خشک و تر کو منفعت پہنچانا ہے، ہرصاحب حیات کی زندگی سورج کے بغیر نہیں چل سکتی، اگر سورج ایک لمحے کے لئے اپنی تابکاری اور روشنائی روک دے تو تمام مخلوقات کی زندگی کا زوال یقینی ہوجائےگا۔

امام علیہ السلام بھی اگر ایک لمحے کے لئے امامت سے منصرف ہوجائے تو تمام مخلوق اپنی جان کھو بیٹھے گی۔ یہ بات مختلف احادیث میں مختلف طریقوں سے بیان ہوئی ہے؛

امام سجاد (ع) ایک حدیث میں فرماتے ھیں: «لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتِ الْأَرْضُ بِأَهْلِهَا۔۔۔

ترجمہ و تشریح: اگر ہم اہل بیت علیہم السلام میں سے کوئی روئے زمین پر نہ ہوتا تو زمین، تمام اہل زمین کو نگل دیتی، اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ کائنات کی ساری مخلوقات، آئمہ اطہار علیہم السلام کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔

اس حدیث مبارکہ سے امام زمان علیہ السلام کی امامت کا بھی پتہ چلتا ہے۔

ترجمہ: غلام مرتضی جعفری

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری