افریقی ممالک پر اسرائیل کی لالچی نگاہیں


افریقی ممالک پر اسرائیل کی لالچی نگاہیں

افریقی ممالک کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی روابط ٹھیک نہ ہونے کے باوجود دو مہینے سے بھی کم عرصے میں نیتن یاہو نے چار افریقی ملکوں کے دورے کئے۔

تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق، بیسویں صدی کے60ویں عشرے کے بعد اسرائیل کی مصر کے ساتھ 1967ء اور 1973ء میں باقاعدہ طور پر جنگیں اور اس کے علاوہ اسرائیل کے جنوبی افریقہ کی رنگبھید حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی وجہ سے بہت سارے افریقی ملکوں نےاسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کئے تھے۔

نیتن یاھو کی چار افریقی ملکوں کا یہ دورہ  گذشتہ بیس سالوں میں کسی بھی اسرائیلی وزیراعظم کا پہلا دورہ ہے۔

چار ملکی بشمول یوگنڈا، کینیا، روانڈا اور ایتھوپیا دوروں کے آخری دورے کے دوران ایتھوپیا کے پارلیمنٹ میں نیتن یاہو کی تقریر اسرائیل کے اصلی اہداف کی نشاندہی کرتی ہے۔

نیتن یاھو نے ایتھوپیا کے ارکان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہم ایتھوپیا اور افریقہ میں پائے جانے والے سہولیات کو مشاہدہ کر رہے ہیں اور فخر کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ اب اسرائیل دوبارہ افریقہ میں نئے امیدیں اور نئے جذبات لے کر آرہا ہے۔

ینتن یاھو نے یوگنڈا کے ایک ٹی وی چینل کو انٹریو دیتے ہوئے کہا: ہم افریقہ میں غلطیوں کے مرتکب ہوچکے ہیں اور اب میں چاہتا ہوں کہ ان تمام غلطیوں کا ازالہ ہوجائے۔

نیتن یاہو کے ساتھ کون لوگ تھے؟

نیتن یاھو نے اپنے ساتھ 80 تاجر اور مختلف کمپنیوں کے 50 ذمہ داران کے علاوہ دوسرے حکام کو بھی لےکر گیا تھا تاکہ افریقہ کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات میں استحکام لایا جاسکے۔

صہیونی معیشت

صہیونی تاجروں اور کمپنیوں کے ارکان پر مشتمل ایک بڑے قافلے نے چار افریقی ممالک کا دورہ کرکے کئی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ سب سے زیادہ معاہدے صحت، پانی، امیگریشن، سیاحت اور نئی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کئے گئے ہیں۔ یہ معاہدے اسرائیل کو یورپی بائیکاٹ کی دھمکیوں کو کمزور بنانے کے لئے اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر

صہیونی حکومت کو ہمیشہ بین الاقوامی قراردادوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، ایسی قراردادیں جو سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف پاس کئے جاتے ہیں لیکن یہ تمام قراردادیں امریکی مخالفتوں کی وجہ سے ناکارہ رہ جاتی ہیں۔

تاہم جنرل اسمبلی میں اسرائیل کے خلاف پاس ہونے والی قراردادیں امریکی مخالفتوں کی وجہ سے ناکارہ نہیں ہوتیں۔

صہیونی حکومت اس پس منظر میں میں جس طرح چاہے اپنے حق میں ووٹ لے سکتی ہے تو ایسی صورتحال میں یہ حکومت اپنی حمایت یا مخالفت میں پاس ہونے والی قراردادوں پر نظر رکھ سکتی ہے۔

افریقی یونین

حالیہ دوروں کے دوران نیتن یاھو کو یقین دلایا گیا ہے کہ اسرائیل کو افریقی یونین میں مبصر کے عنوان سے رکھا جاسکتا ہے۔

ایتھوپیا کے وزیراعظم ''ہیلی میریم'' نے نیتن یاھو کے ساتھ ملاقات میں کہا: اسرائیل بہت سے افریقی ممالک میں نہایت فعال کردار ادا کر رہا ہے لہٰذا افریقی یونین میں ان کو مبصر کے عنوان سے نہ رکھنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا ہے۔

نتیجه

افریقی ممالک میں صہیونی سیاستدانوں اور تاجروں کے وفود کی موجودگی اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اسرائیل افریقہ میں کثیرالجہتی پروگراموں کا ارادہ رکھتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ نیتن یاھو کی طرف سے معذرت خواہی کرنا کہ وہ دیر سے افریقہ آئے اور اسرائیل کی سابقہ غلطیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔ یہ بات توجہ طلب ہے کیونکہ اس سے پہلےکبھی صہیونی حکومت کی طرف سے کسی بھی ملک سے تعلقات کی بنا پر معذرت خواہی نہیں کی گئی ہے۔

اب افریقہ میں جاکر اس قسم کی معذرت خواہیاں اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل افریقہ میں اپنے لئے جگہ پیدا کرنا چاہتا ہے اگر چہ ذلت و رسوائی کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔

اس سے دو قسم کے معانی اخذ کئے جاسکتے ہیں، اول یہ کہ صہیونیوں کے بہت بڑے منصوبے ہو سکتے ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ کہ اسرائیل کسی بھی صورت میں حالیہ دورے کو ناکام ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل کے پورے خطے کے لئے کئی منصوبے ہیں، جس خطے کو نیتن یاھو نے سفر کے لئے انتخاب کیا ہے وہ دریائے نیل کے سرچشموں پر مشتمل ہے اور یہ سب بغیر پانی والے افریقی ممالک کے لئے نہایت اہم ہیں خصوصا مصر پر حاوی ہونے کےلئے اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔

اب ایتھوپیا اور جبوتی نئے تیل کے ذخائر کی دریافت کی وجہ سے افریقہ کے نئے تیل سے مالامال اقتصادی طاقتیں شمار ہوںگی۔

یہ ہر اس سوال کا جواب ہو سکتا ہے کہ کیوں اسرائیل افریقہ کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے۔

اس کے علاوہ افریقہ میں موجود مہنگے معدنی وسائل اور سستے ورک فورسز بھی ایک مسئلہ ہے جو اسرائیل کے افریقہ جانے کی وجوہات میں سے ایک ہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری