ایران اور پاکستان خطے کی ترقی میں یک جان دو قالب ہیں


ایران اور پاکستان خطے کی ترقی میں یک جان دو قالب ہیں

پاک آرمی کے ریٹائرڈ افسر نے خطے کی ترقی میں ایران اور پاکستان کو یک جان دو قالب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی عسکری قیادت پاکستان کے بعد تمام دنیا میں دوسرے نمبر پر بہترین عسکری قیادت سمجھی جاتی ہے جن کے آپس میں انتہائی اچھے مراسم ہیں۔

تسنیم نیوز کو انٹرویو کے دوران کیپٹن ایم اے فاروقی نے کہا ہے کہ بلا شبہ خطے کی ترقی میں ایران اور پاکستان یک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایرانی عسکری قیادت پاکستان کے بعد تمام دنیا میں دوسرے نمبر پر بہترین عسکری قیادت سمجھی جاتی ہے اور ان کے ساتھ ہمارے انتہائی اچھے مراسم ہیں۔ جنرل ناصر جنجوعہ کا ایران دورہ اس کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے لیکن چند ناعاقبت اندیش اور سازشی عناصر ہر وقت حالات کو خراب کرنے کے درپے رہتے ہیں۔

تعارف: مبشر احمد فاروقی پاک آرمی کے ایک ریٹائرڈ افسر ہیں اور مختلف آرمی افسران کے لیئے استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ پاکستان فیڈریشن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، لوکل گورنمنٹ اور تعمیرات ہیں. اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے منصوبہ بندی اور تعمیرات بھی ہیں۔ آپ بین الاقوامی امداد باہمی فاؤنڈیشن برائے ایشیا اور پیسفک کے نائب صدر ہیں۔ آپ پنجاب کے باہمی امداد کی تعمیرات کی تنظیم کے فاؤنڈر سیکریٹری جنرل بھی ہیں۔ آپ نظریاتی اعتبار سے پاکستان مسلم لیگ (نواز) سے عرصہ دراز سے وابسطہ ہیں اور ایک سینئر سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہمیشہ غیر متزلزل رہے ہیں اور اسی وجہ سے آپ پاکستان مسلم لیگ نواز میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔

 کیپٹن ایم اے فاروقی کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو گھر فراہم کرنے کے لئے دنیا میں کسی بھی ملک کی حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک امداد باہمی کی تنظیموں اور پرائیویٹ ڈویلپر کے ساتھ مل کر کام نہیں کرتے۔ باعزت چھت ہر ذی روح کا بنیادی حق ہے اور امداد باہمی ہی آج کے مہنگائی سے بھرپور دور میں مشکل کو حل کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں تسنیم نیوز ایجنسی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے اس قابل سمجھا کہ میں اپنے خیالات آپ کے ذریعہ سے تمام دنیا تک پہنچا سکوں۔

اپنے مؤقف کا اظہار کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت جس برق رفتاری سے کام کر رہی ہے اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ملتی۔ اس کا واضع ثبوت لوگوں میں بڑھتی خوشحالی، کم ہوتی ہوئی غربت اور بے روزگاری کی شرح ہے۔ آپ جس شعبے کا بھی مشاہدہ کریں گے تو آپ کو اس میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ترقی اور بہتری نظر آئے گی۔

جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے تو میں یہ برملا کہنا چاہوں گا کہ میں نے بہت سے اجلاسوں میں یہ مسئلہ اٹھایا ہے اور خواہ وزیراعظم پاکستان اور میرے قائد محترم نواز شریف صاحب ہوں یا کوئی بھی حکومتی عہدیدار ہو سب اس معاملے کو حل کرنے میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔ لیکن میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ حکومت جن منصوبوں کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے ان کے راستے میں رخنے ڈالے جاتے ہیں اور حیلوں بہانوں سے روڑے اٹکائے جاتے ہیں کہ اس اہم ترین مسئلے کا حل ناممکن نظر آنے لگ جاتا ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری جیسا منصوبہ ہو یا اورنج لائن ٹرین جیسا جدید ترین منصوبہ، دشمنان ملک و ملت ہر منصوبے کی مخالفت برائے مخالفت کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں منصوبے التواء کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس التواء کا غریب عوام کو دہرا نقصان ہوتا ہے۔ ایک تو سہولیات کے استعمال اور فراہمی میں تاخیر کی صورت میں اور دوسرا منصوبے کے اخراجات کے بڑھ جانے کی صورت میں۔ دیکھنا اس امر کو ہے کہ حکومت اپنے محدود وسائل کو کس طرح عوام کی فلاح کے لئے استعمال کر سکتی ہے۔

جن منصوبوں کو شروع کیا جا چکا ہے انکی تکمیل کے بعد ہی کسی نئے منصوبہ کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔ مخالفین کو چاہئے کہ عوام کی فلاح میں حکومت کا ساتھ دیں کیونکہ حکومت عوامی نمائندوں سے بنی ہے، عوام کی ووٹ کی طاقت کا احترام کیا جانا چاہئے نہ کہ "میں نہ مانوں" کے فارمولے پر عمل پیرا رہنا چاہئے۔ اسی میں قوم و ملت کی بھلائی ہے۔ حکومت کو آراء دینا اپوزیشن کا حق ہے اور ان آراء کو سننا اور عملی جامہ پہنانا حکومت کا فرض ہے۔ معاملات کو اسی طرح بہتر انداز میں چلنا چاہئے نہ کہ جلسہ جلسہ جلوس جلوس کھیل کر اپنا اور قوم کا قیمتی وقت برباد کرنا چاہئے۔

تسنیم:چند روز قبل ایرانی سفیر نے پاکستان فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کا دورہ کیا ساتھ ہی انہوں نے مختلف وزرائے اعلیٰ سے ملاقاتیں بھی کیں۔ اس دورے کوآپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اور کیا یہ دورہ اور ملاقاتیں پاکستان کی ترقی کے لئے خوش آئند ثابت ہو سکتی ہیں؟

فاروقی: ہمارے لئے یہ بہت اعزاز کی بات ہے کہ ایرانی سفیر نے چند روز قبل پاکستان فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کا دورہ کیا اور مجھے ان سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا جس پر میں انکا انتہائی ممنون و مشکور بھی ہوں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایرانی ہمارے بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ ہمسائے بھی ہیں اور مسعود چوہدری کے کالم سے مجھے معلوم ہوا کہ پاکستان اور ایران دنیا کی سب سے بڑے شیعہ مسلک کے ماننے والے لوگ ہیں۔ بلا شبہ خطے کی ترقی میں ہم ایک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایرانی عسکری قیادت پاکستان کے بعد تمام دنیا میں دوسرے نمبر پر بہترین عسکری قیادت سمجھی جاتی ہے اور ان کے ساتھ ہمارے انتہائی اچھے مراسم ہیں۔ جنرل ناصر جنجوعہ کا ایران دورہ اس کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے لیکن چند ناعاقبت اندیش اور سازشی عناصر ہر وقت حالات کو خراب کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ لوگ کبھی کامیاب ہو سکیں گے. اور اللہ نہ کرے کہ دونوں ممالک کے درمیان کبھی کوئی خلش ہو۔ ہمارے ترقیاتی منصوبہ جات بہتر انداز میں چل رہے ہیں اور مستقبل میں ان میں مزید بہتری کی توقع ہے اور میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بجلی کے منصوبے اور گیس کے جن منصوبوں پر کام جاری ہے اور جلد ان پر بڑی پیش رفت متوقع ہے ان کی مدد سے خوشحالی کے دور کا آغاز ہو گا۔ انشاء اللہ جو معاہدے ایران کے ساتھ کئے گئے ہیں وہ پورے ہوں گے اور محبت کا سفر جاری رہے گا۔

تسنیم: دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور پاکستان آرمی کے کردار کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں؟

فاروقی: دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل ہماری نہیں تھی بلکہ ہم پر مسلط کر دی گئ ہے۔ ہم نے تو اپنے ہمسایہ ممالک کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن جیسا کہ آپکے علم میں ہے کہ جب آپ کسی کی مدد کے لئے جاتے ہیں اور ایک اشتراک کا حصہ ہوتے ہیں تو بعض اوقات لڑائی آپ کے گلے آ جاتی ہے اور ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے. اکثر لوگ اکیلے امریکہ کو اس تمام معاملے کا ذمہ دار گردانتے ہیں جو کہ میری نظر میں درست نہیں ہے۔ دوسرے بہت سے محرکات بھی شامل حال ہیں۔ جس انداز میں پاکستان آرمی نے اس جنگ کو لڑا ہے دنیا کی کوئی اور فوج اس کی سکت نہیں رکھتی۔ عسکری ماہرین یہ بات تسلیم کریں گے کہ نہ نظر آنے والا دشمن ظاہری دشمن سے کئ گنا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ یوگنڈا، صومالیہ اور نائجیریا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ آج بھی بہت سے ممالک کی عسکری قیادتیں ہم سے گوریلا جنگجوؤں کے خلاف لڑنا سیکھنے آتی ہیں جو کہ ہماری آرمی کی پیشہ ورانہ قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ہماری آرمی جو کہ سرحدوں کی حفاظت پر مامور تھی اسے گلی محلوں میں اتر کر لڑنا پڑا۔ آج آپکو کوئی کمین گاہ نظر نہیں آتی۔

یہ ہمارے جوانوں کی قابلیت کا ہی ثمر ہے کہ جہنم کے کتے جہنم میں تو بھونکتے ہوں گے، پاک سرزمین ان کے ناپاک قدموں سے پاک ہو چکی ہے۔ جو چند ایک چھپے بیٹھے ہیں وہ بھی بہت جلد واصل جہنم ہوں گے انشاء اللہ۔ پاکستان آرمی مکمل طور پر پر عزم اور غیر متزلزل مؤقف پر کاربند ہے۔ میں بھی اسی نظریے کا حامی ہوں کہ جہنم کے کتوں اور انکے سہولت کاروں کو انکی اصل جگہ پر ہی ہونا چاہئے۔

پوری پاکستانی قوم آج یک زبان ہے کہ پاکستان آرمی بہت اچھا کام کر رہی ہے تو یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ نہ صرف آرمی کے جوانوں کی حوصلہ افزائی کریں بلکہ جہاں کہیں بھی ممکن ہو انکے شانہ بشانہ ببانگ دہل کھڑے نظر آئیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم سے بہتر سہولت کاروں کی نشاندہی کوئی اور نہیں کر سکتا۔ نہ صرف ہم اس اہم کام کو سر انجام دیں بلکہ دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔

پولیسنگ کا کام آرمی کا نہیں لیکن چونکہ یہاں دہشت گرد نظروں سے اوجھل ہیں تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ پاک فوج کا بھرپور ساتھ دیں تاکہ ہمارے بچے محفوظ رہ سکیں۔

تسنیم: کیا آپکو لگتا ہے کہ ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت باہمی مشکلات اور باہمی مسائل کا حل ہے؟

فاروقی: جی ہاں! یہ ہی تو واحد راستہ ہے۔ بلا شبہ مسائل کا حل بھی تجارت ہی میں پنہاں ہے۔ یہ انبیاء کا پیشہ بھی رہا ہے اور چیمبرز کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ لوگ تجارت کے ذریعے سے خوشحال ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ عوامی رابطوں میں فروغ کے باعث بھی دو ممالک کے درمیان رابطے کے فقدان کا مسئلہ بھی جنم نہیں لے پاتا۔ پاکستان ایک بہت بڑی اور اچھی مارکیٹ ہے اور اس ہی لئے مختلف ممالک ہم سے تجارت کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہم بھی ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری