شام میں چین کے رجحان کی گہری جہتوں کا جائزہ


شام میں چین کے رجحان کی گہری جہتوں کا جائزہ

چینی فوجی وفد کا حالیہ دمشق دورہ اپنے اندر مختلف پیغامات لیا ہوا ہے جو شام اورخطے میں بیجنگ کے کردار کےایک نئے دور کا آغاز شمار ہوتا ہے۔

شام سے تسنیم کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، چین نے حال ہی میں بین الاقوامی فوجی تعاون بیجنگ کے سربراہ ایڈمرل جوان یوفی کے ذریعے سے شامی فوج کے ساتھ فوجی تعلقات کو توسیع دینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

شام اور خطے کے منظرنامے میں چین کا یہ اقدام اس ملک کے کردار کےایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چینی فوجی وفد کے شام دورے کا مقصد مسلح گروہوں سے نمٹنے کے لئے شام کے ساتھ فوجی امداد کو ہم آہنگ کرنا اور کوئی عملی اقدامات کرنے سے پہلے تنازعے میں موجودہ صورت حال کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ہے۔ یہ دورہ ترکی سمیت خطے میں بعض ممالک کی شام سے متعلق پوزیشن کی تبدیلی کے سائے میں کیا گیا ہے۔

چین پہلے سے زور دیتا آیا ہے کہ شام کے بحران کا صرف سیاسی حل ممکن ہے اور چینی فوجی وفد کے شامی دورے میں شامی فوج کی فوجی حمایت اور تربیت پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ شامی فوجی کمانڈروں کے ساتھ چینی وفد کے مذاکرات کا سرکاری موضوع تو شامی فوجی افسران کی تربیت تھا

لیکن یہ دورہ شام کی طرف چین کے نئے رجحانات اور گہری جہتوں کا حامل ہے۔

ہو سکتا ہے کہ ان جہتوں میں سے ایک چینی مسلح مخالف گروہ (اویغور) کے کردار کے بارے میں چین کی بڑھتی ہوئی تشویش ہو جس کا حلب کے جنوب، جسر الشغور اور لازقیہ کے شمالی مضافاتی علاقے کے جھڑپوں میں اہم کردار ہے۔ شمالی شام میں اویغور (جو ترکستانی پارٹی کے نام سے بھی مشہور ہے) کےمسلح افراد دو ہزار کے لگ بھگ ہیں اور ان میں سے ایک ہزار دیگر افراد داعش کے رکن ہیں جنہوں نے 2015ء میں جسر الشغور، ابوالظهور ہوائی اڈہ اور حلب کے جنوب میں دو ہفتے قبل کی لڑائیوں میں بنیادی کردار ادا کیا۔

جنوبی چین میں مقیم اقلیتی قوم اویغور سے تعلق رکھنے والےمسلح افراد نے چند سال پہلے ملک کے اس علاقے میں دہشت گردی کی مہم شروع کی ہے اور ہمیشہ چینی حکومت کے خلاف جنگ کے بیانات جاری کرتے ہیں۔ امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ شاید شام ایک ایسا مرکز ہو جہاں بعض علاقائی اور بین الاقوامی انٹیلی جنس ایجنسیاں اویغور کے مسلح افراد کو تربیت دے رہی ہوں تاکہ ان کو چین میں تخریب کاری کے لئے تیار کریں۔

2012ء سے اویغور چین کےسنکیانگ صوبےسے افغانستان اور پاکستان کے راستے شام کی لڑائی میں شامل ہوگئے ہیں اور 2014ء میں شام میں باقاعدہ طور پر اپنے وجود کا اعلان کیا ہے۔ اویغور جیسے مسلح کروہ کے ساتھ نمٹنا چین کے شام کے ساتھ تعاون کا سب سے اہم میدان ہے۔ چین نےدمشق کے فائدے میں دو مرتبہ سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق استعمال کیا ہے اور حال ہی میں شام میں انسانی بنیادوں پر امداد کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے تاکہ اس طرح دہشت گردی کے خلاف شامی حکومت کی طاقت کو بڑھائے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری