اسرائیل کی جانب سے ڈیٹرنس میں اضافے کی کوشش ماضی سے زیادہ تباہ کن جنگ کا باعث بنے گی


اسرائیل کی جانب سے ڈیٹرنس میں اضافے کی کوشش ماضی سے زیادہ تباہ کن جنگ کا باعث بنے گی

اگرصیہونی حکومت اسی حساب سے زیادہ سے زیادہ ڈیٹرنس کے حصول کے لئے کوشش کرتی رہی تو ایک بار پھر ایک ایسی جنگ چھڑ سکتی ہے جو ماضی کے مقابلے میں ان کے لئے زیادہ تباہ کن ثابت ہوگی اور اس کے ازالےکے لئے ان کو کوئی موقع بھی نہیں ملے گا۔

تجزیہ نگار سید محمد جعفر رضوی نے تسنیم نیوز ایجنسی کے لئے لکھے گئے اپنے کالم میں بیان کیا ہے کہ پیر 21 اگست کی رات غزہ کے آسمان سے ہوائی حملے کے دوران اسرائیلی فوج کے طیاروں نے غزہ کی پٹی پر 16 راکٹ داغے۔ اس حملے میں تین بے گناہ فلسطینی شہری زخمی ہو گئے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر حملہ وہاں سے داغے گئے ایک راکٹ حملےکے بعد کیا گیا ہے۔

فلسطینی حکام کے مطابق، یہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان جنوری 2014ء میں ہونے والی 51 روزہ جنگ کے بعد سب سے بڑی لڑائی تھی۔

اسرائیلی حکام نے کہاکہ غزہ کی پٹی سے اسرائیل کی جانب داغے جانے والے راکٹ کی ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے اور اس تنظیم کوغزہ کی پٹی سے راکٹ فائر کرنے کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔

صیہونیوں کو نئے توازن کی تلاش

اس واقعے میں قابل ذکرنکتہ ایک راکٹ فائر کرنے کے بدلےکئی طیاروں سے فضائی حملے اور غزہ سےفائر کئے گئے راکٹ کے طرز پر ہی زمین سے زمین پر مار کرنے والے 16 راکٹ فائر کرنا ہے۔

ماضی میں، جب غزہ کی پٹی سےراکٹ یا مارٹر گولے اسرائیل کی جانب فائر کئے جاتے تھے تو اسرائیل میزائل کی تعداد کے تناسب سے حملوں کا جواب دیتا لیکن اس بار زمین سے زمین پر مار کرنے والے ایک میزائل فائر کے بدلے اسی نوعیت کے 16 راکٹ فائر کئے گئے ہیں۔

فلسطینی تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ صیہونی حکومت حماس اور مزاحمتی دھڑوں کے ساتھ ایک توازن پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں اور یہ توازن اسطرح ہے کہ ایک گولی کا جواب دس گولیوں سے دیا جائے گا۔

لگتا ہے کہ یہ نیا توازن اس سلسلے میں وجود میں لایا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ دفاعی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکے۔

اس لئے کہ دشمن کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ ڈیٹرنس کا حصول اسرائیل کی حکمت عملی کا بنیادی اصول ہے۔ 51 روزہ جنگ صیہونیوں کے لئے بے انتہا اخراجات وجود میں لایا تھا۔ قدس میں انتفاضہ تحریک کےشروع ہونے کے بعد بے تحاشا اخراجات کا سلسلہ جو آج تک جاری ہے، سیاحت میں تیزی سے کمی اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی وجہ سے اقتصادی زوال کی شکل میں دکھائی دے رہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ کے بڑے بڑے اخراجات نےصیہونیوں کومجبور کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ڈیٹرنس کے حصول کے ذریعے 51 روزہ طویل جنگ کی مانند کسی اور جنگ کو روک سکے۔ اس سلسلے میں ایک راکٹ کے بدلے درجنوں میزائل کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ڈیٹرنس کا حصول ان کے لئے ایک غنیمت ہے۔

صیہونیوں کےغلط اندازے

ماضی کے توازن کوتبدیل کرکےاونچے درجے کا ڈیٹرنس ایجاد کرنا اس صورت میں صحیح ہو گا جب صہیونیوں کے اندازے درست ہوں اور مزاحمتی گروہ بھی ان کے مطابق عمل کریں لیکن ماضی نے ثابت کیا ہے کہ مزاحمت نے ہمیشہ سے نے صرف ان قابضین کو غافل اور حیران کر دیا ہے بلکہ عالمی برادری کے لئے بھی باعث تعجب بنے ہیں۔ اس کے علاوہ عقیدے اورشہادت کی اقدار پر گہری نگاہ  کی بنیاد پر لڑنا بہت سے معاملات میں صیہونیوں کے حساب کتاب اور اندازوں کوبری طرح متاثرکرتا آیا ہے۔

لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر صیہونیوں نے ان اندازوں کے ساتھ اونچے درجے کی ڈیٹرنس قائم کرنے کی طرف قدم اٹھایا تو پھر ایسی جنگ کے مرتکب ہونگے جو ان کے لئے ماضی کے مقابلے میں انتہائی تباہ کن ثابت ہوگی اور اس کے ازالے کے لئے ان کےپاس کوئی موقع نہ ہوگا کیونکہ ہونے والے حملے کا نامناسب جواب، مسلمانوں میں جبر اور ظلم کے خلاف ان کےاحساسات کو جھنجوڑکے فلسطین کی فضا کو دگرگون کر سکتا ہے۔ یہ وہی مسئلہ ہےجو 2014ء میں 51 روزہ جنگ کے تسلسل کی وجہ پیدا ہوا، ایسی جنگ کہ صیہونیوں نےکبھی سوچا تک نہیں تھا کہ اتنی طویل ہوگی اور آخر میں نتانیاہو کی جانب سے چند بار جنگ بندی کی درخواست اور مزاحمت کاروں کے شرائط پرختم ہو گئی۔

کوئی جنگ چھڑ سکتی ہے؟

مندرجہ بالا نکات کو دیکھتے ہوئے کہنا چاہئے کہ غزہ کی پٹی کی ضروریات زندگی، سہولیات کی طویل مدت سےناکہ بندی، مصر اور فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے دباؤ میں ہونے کی وجہ سے اقتصادی اورسماجی لحاظ سے کسی مناسب حالت میں نہیں ہے لیکن یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ مزاحمتی گروہوں نے 51 روزہ جنگ کے دوران اعلان کیا تھا کہ انہوں نے اپنے میزائل کے ذخائر کو بڑھا دیا ہے اور صیہونیوں کی رپورٹ کے مطابق، 2014ء کی جنگ کے خاتمےکے بعد سے اب تک مزاحمت کاروں نے تقریبا 2 ہزار میزائل ٹیسٹ کئے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فضائی حملوں کےبعد مزاحمت کاروں کی مشقیں اور میزائلوں کی نمائشیں اپنے اندر واضح پیغام دے گئی ہیں کہ مزاحمت کبھی اجازت نہیں دیگی کہ ان کےسامنے دشمن کی طاقت ان کو خوفزدہ یا دھمکا سکے اور یہ صیہونیوں کے لئے ایک سنگین انتباہ ہوگا۔

لہٰذا، یہ کہنا چاہئے کہ ایک فضائی حملے کے ساتھ ایک اور جنگ چھڑ جائے اس کے امکانات بہت کم ہیں لیکن صہیونیوں نے اگر ایک اور توازن پیدا کرنے اور غزہ کی پٹی میں جاری ڈیٹرنس کو بڑھانےکا سلسلہ جاری رکھا تو اس صورت میں مزاحمت کاروں کی صیہونیوں کے ساتھ نئی جھڑپوں کا انتظار کرنا چاہئے۔ ایسی نئی جھڑپیں جن کا مزاحمتی گروہوں نے دو سال پہلے بھی صیہونیوں کو ان کی لاعلمی کے بارے میں سنجیدگی سے انتباہ کیا تھا۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری