خطے میں ایران، روس اور ترکی کے درمیان فوجی تعاون میں اضافے کی 3 بنیادی وجوہات


خطے میں ایران، روس اور ترکی کے درمیان فوجی تعاون میں اضافے کی 3 بنیادی وجوہات

ایک چینی اخبارنے شام کے بحران کو حل کرنے کےلئے ایران، روس اور ترکی کے درمیان بڑھتے ہوئے سیاسی اور فوجی تعاون کا حوالہ دیتے ہوئے اس تعاون کی تین اہم اوربنیادی وجوہات کو بیان کیا ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم نے چینی اخبار (چین یوتھ ڈیلی) کے حوالے سے بتایا ہے: جیسا کہ ماسکو اور تہران باہمی تعلقات اور تعاون کو مسلسل وسعت دے چکے ہیں تاہم دوسری طرف ماسکو اور انقرہ کے درمیان تعلقات شامی سرحد پر ترکی کے جنگی جہازوں کی طرف سے ایک روسی لڑاکا طیارے کو مارگرانے کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے ہیں۔

یہ چینی اخبارمزید لکھتا ہے کہ شام میں داعش کے ساتھ نمٹنے کے طریقے پر نیٹو کے ساتھ اختلافات اور حالیہ ناکام فوجی بغاوت وجہ بنی کہ انقرہ دوبارہ روس کی جانب واپس لوٹے۔

موصول ہونے والی کچھ معلومات کے مطابق، ترک صدر رجب طیب اردگان ماسکو سے موصول ہونے والی معلومات کے ذریعے سے ہی 15 جولائی کی فوجی بغاوت سے نمٹنے میں کامیاب ہوا۔

یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ بغاوت سے پہلے ترکی میں فوجوں کی غیر معمولی نقل و حرکت، نیٹو کے علم میں نہیں تھا۔

لگتا ہے کہ  نیٹونےان معلومات کو اردگان کے ساتھ شئیرنہیں کیا تھا۔ روس نےاس موقعے سے فائدہ اٹھا کے ترکی کو دکھایا کہ دوست کون ہے اور دشمن کون؟

اسی طرح تہران نے بھی گزشتہ ہفتے ماسکو کو شام کے علاقوں میں داعش کے خلاف فضائی حملے انجام دینے کےلئے ہمدان ایئر بیس استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

چینی اخبار نے روس، ایران اور ترکی کے درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون کو فروغ دینے کی تین اصل وجوہات بیان کئے ہیں:

1. سب سے پہلےتو یہ کہ اگر روس، ایران اور ترکی انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں شامل ہوجاتے ہیں تو داعش کے ساتھ  نمٹنے کے لئے ان تینوں ممالک کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ممالک امریکہ، یورپ اور مشرق وسطی کے لئے ایک واضح پیغام بھیجیں گے کہ یہ تینوں ممالک شام میں اہم کھلاڑی ہیں۔ شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے ماسکو، تہران اور انقرہ کو نظر انداز کرکے کسی بھی قسم کی عسکری، اقتصادی اور سیاسی کوشش ناکام اور قابل شکست ہوگی۔

2. تینوں ممالک کے درمیان تعاون مشرق وسطی میں امریکہ کے اہم اتحادی سعودی عرب پر دباؤ بڑھنے کا سبب گا۔ سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادی ممالک شام بحران کے ذریعے ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر نے کی کوشش کر رہے تھے۔ روس اور ترکی کے ساتھ تعاون کرکےایران نے ریاض کو ایک مضبوط پیغام بھیجا ہے کہ تہران کےاندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔

3. اس اتحاد  سےامریکہ، یورپ اور نیٹو کو مشرقی وسطی میں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔ ترکی اور ایران نے روس کے ساتھ قریبی تعلقات کو ترجیح دی ہے۔ اس چینی اخبار نے ان تین ممالک کے درمیان تعلقات کو ایک منطقی اقدام قرار دیتے ہوئے مزید کہا: ایران اور ترکی کا روس کی جانب رخ کرنا آیا امریکہ اور یورپ کے لئے قابل قبول ہے یا نہیں؟
تاہم یہ امر ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے۔

المانیٹر اخبار نے بھی ایران اور روس کے درمیان علاقائی تعاون کے بارے میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ان دنوں ایران اپنے آپ کو مشرق وسطی میں روس کے لیے ایک اسٹریٹجک پارٹنر گردانتا ہے۔ ایران اور روس شامی حکومت کی جنگ میں حمایت کرتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ ایران دکھانا چاہتا ہے کہ اگرچہ روس، شام میں مختلف کھلاڑیوں امریکہ اور ترکی سے متعلق بات کرتا رہتا ہے تاہم یہ ایران ہے جو روس کے لئے ایک قابل اعتماد پارٹنر ثابت ہوگا۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری