آخر ہم بھی مسلمان ہیں!


آخر ہم بھی مسلمان ہیں!

«مَنْ سَمِعَ رجلا ینادی یا لَلْمُسْلِمینَ فَلَمْ یجِبْهُ فَلَیسَ بِمُسْلِمٍ»؛ (اگر کوئی کسی انسان کی آواز سنے اور وہ مدد کےلئے پکار رہا ہو، کہ "اے مسلمانوں میری مدد کرو"، تو اگر کسی نے اس کی مدد نہ کی تو وہ مسلمان نہیں ہے۔)

تسنیم نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یہ الفاظ کسی عام انسان کے نہیں ہیں بلکہ اشرف انبیائے الهی و رحمة للعالمین، اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی(ص) کے فرمودات ہیں۔ اگر ہم اس گوہر بار نکات پر غور و فکر کریں تو واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی ایک فرد کا بھی دشمن کے ظلم وستم میں گرفتار ہونے کی صورت میں ہمارا کیا وظیفہ ہوتا ہے۔

صرف فلسطین کا مسئلہ اور اس پر تقریبا سات دہائیوں سے صیہونی غاصب حکومت کا ناجائز قبضہ، جوملت فلسطین کے غم غصہ میں روز افزوں اضافہ کررہا ہے، امت مسلمہ کے لئے تنها اہم مسئلہ نہیں بلکہ اس مسئلے کی اہمیت کے ساتھ ایک اور اہم مسئلہ بھی ہے جو فلسطین کے مسئلے سے کم نہیں ہے اور وہ ہےمسئلہ کشمیر، لیکن عالم اسلام نے بد قسمتی سے یہ مسئلہ بھلا دیا ہے۔

کشمیر ایک ایسا علاقہ ہے جو کئی دہائیوں سے غیر مسلموں کے ناجائز قبضے میں ظلم و جبر سہتا آرہا ہے اور یہ ظلم وجبر ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہا۔

اگرچہ فلسطین کا مسئلہ مسلم اور عرب میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرچکا ہے لیکن مسئلہ کشمیر حتی مسلم میڈیا میں بھی اپنے لئے جگہ نہیں بنا سکا۔ یہ سب کچھ امت مسلمہ کی غفلت اورعدم توجہ کے باعث ہورہا ہے۔

ہر آزاد مسلمان کا فرض ہے کہ کشمیر کے نہتے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور غیر مسلموں کی اشتعال انگیز اور خوفناک کارروائیوں کو بے نقاب کرکے کشمیرکے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھا کر عالم انسانیت بالخصوص اسلامی دنیا تک پہنچائے۔

انسانی، اخلاقی بلکہ شرعی فریضہ یہ ہے کہ اس خطے میں غیر مسلم جو مظالم مسلمانوں پر ڈھا رہے ہیں، کے متعلق چارہ جوئی کی جائے۔

کشمیری مسلمانوں کا جرم یہ ہے کہ وہ پر امن طریقے سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ ان کے مطالبات کا جواب گولیوں سے دیا جارہا ہے۔

 

 

بین الاقوامی قراردادیں اس بات پر گواہ ہیں کہ مسلم اکثریت والے علاقے اپنے حق خود ارادیت کا تعین خود ہی کرسکتے ہیں۔

میڈیا پر پابندی اور امت مسلمہ کی غفلت کے باوجود کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جس میں کشمیر سے شہادت یا زخمی ہونے کی خبر نہ آتی ہو۔

کشمیر کہاں ہے؟

عین ممکن ہے کہ عرب ممالک حتی کہ اسلامی ممالک کے اکثر عوامی رائے کشمیر کے نام سے ناآشا ہوں! چہ رسد کہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں علم وآگاہی رکھیں۔

جموں و کشمیر کا محل وقوع: کشمیر برصغیر کے شمال مغرب میں واقع ہے جس کا ایک حصہ جموں اور کشمیر انڈیا کے کنٹرول میں جب کہ دوسرا حصہ آزاد جموں و کشمیر بشمول گلگت بلتستان، پاکستان کے زیر انتظام ہے اور اس علاقے کا کچھ حصہ جو اکسائی چن کے نام سے جانا جاتا ہے، چین کے کنٹرول میں ہے۔

کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکش مناظر کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے، دنیا سے سیر و تفریح کے لیے لوگ بڑی تعداد میں کشمیر کا رُخ کرتے ہیں۔ یاد رہے ہمالیہ اور ہندوکش کے بلند و بالا پہاڑوں کے سلسلے بھی اس علاقے میں واقع ہیں۔ دنیا کی دوسری بلندترین چوٹی "کے ٹو" پاکستا ن کے زیر کنٹرول صوبہ گلگت بلتستان میں ہے جس کو سر کرنے دنیا بھر سے سالانہ سینکڑوں لوگ اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔

آزاد کشمیر ریاست جموں و کشمیر کا وہ حصہ ہے جو اس وقت پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ اس کا باقاعدہ نام ریاست آزاد جموں و کشمیر ہے جس پر پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعہ ہے۔ یہ علاقہ 13،300 مربع کلومیٹر (5،135 مربع میل) پر پھیلا ہے۔ آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفرآباد ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس کی آبادی 40 لاکھ ہے۔ یہاں پہاڑی، ہندکو، گوجری، پنجابی اور پشتو زبانیں بولی جاتی ہیں۔ بقول مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر؛ "کشمیر زمین پر جنت ہے۔"

آزاد کشمیر میں 10 اضلاع، 19 تحصیلیں اور 182 یونین کونسلیں ہیں۔ آزاد کشمیر کے میرپور ڈویژن میں ضلع باغ، ضلع بھمبر، ضلع پونچھ، ضلع سدھنوتی، ضلع کوٹلی، ضلع مظفر آباد، ضلع میر پور، ضلع نیلم، ضلع حویلی اور ضلع ہٹیاں شامل ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں وادی کشمیر میں 95 فیصد مسلمان بستے ہیں۔ یہ علاقہ 101،437 مربع کلو میٹر اور اس کی آبادی  2011 کی مردم شماری کے مطابق 12میلین سے زیادہ ہے۔ اس علاقے کا دارالحکومت موسم گرما میں سرینگر اور موسم سرما میں جموں ہے۔

سرینگر

ایک کشمیری طالب علم سید علی موسوی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے سابق وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے کشمیری قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اس خطے میں حق خود ارادیت کی بنیاد پر انتخابات کئے جائیں گے۔ کشمیریوں کو اپنی سرنوشت کے تعین کا حق دیا جائے گا۔ نہرو نے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی خاطر، اس مسئلے کو قانونی اور بین الاقوامی درجہ دینے کے لئے اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ کروایا تھا۔ اسی عھد کی بنیاد پر اس خطے کے لوگ  کئی دہائیوں سے  پرامن مظاہروں اور احتجاج کے ذریعہ اپنی آزادی کا مطالبہ دہراتے رہتے ہیں۔

پنڈت جواہر لال نہرو

کشمیر میں حریت پسند سیاسی اور سماجی گروہوں کی حوصلہ افزائی سے 1987ء میں انتخابات ہوئے، لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے جوش وخروش کے ساتھ  ان انتخابات میں حصہ لیا لیکن اس کے نتائج لوگوں کی امیدوں کے برخلاف سامنے لائے گئے۔ یہی مسئلہ علاقے کے لوگوں میں غم وغصہ میں اضافےکا سبب بنا اور یہ تحریک روز بروز پھیلتی گئی۔ نتیجتا بھارتی فوج اور مقامی لوگوں کے درمیان باقائدہ تصادم کا آغاز ہونے لگا ۔

بھارتی فوج نے طاقت کے بل بوتے اس تحریک کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ 2004ء میں ایک مسلحانہ تحریک چلی جس میں بھارتی فوج کے ہاتھوں تقریبا دولاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے اور طاقت کے ذریعہ لوگوں کو خاموش رہنے پر مجبور کیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ اسی دوران علاقے کے ہزاروں لوگ لاپتہ ہوگئے جن کی مائیں، بہنیں اور بیویاں آج بھی ان کی راہ تکتی رہتی ہیں۔ بد قسمتی سے بہت ساری لڑکیوں اور خواتین کی عصمت دری بھی کی گئی۔ اس واقعے کے بعد بھارتی فوج آہستہ آہستہ سرحدی اور جنگلی علاقوں میں محدود ہو گئی۔

کشمیر کے حق خودارادیت پر اقوام متحدہ کی قراردادیں بار بار جیسے 12 اپریل 1948ء، 13 اگست 1948 اور جنوری 1949ء میں منظور ہونے کے باوجود، یہ قراردادیں کاغذی حدود تک محدود ہو کررہ گئیں اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کی قید وبند سے آزاد کرانے میں ابھی تک مکمل طور پر ناکام رہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی داعی تنظیم بھی کشمیری مسلمانوں کے درد و غم کو درک کرنے سے ہمیشہ قاصر نظر آتی ہے۔ افسوس کے ساتھ  کہنا پڑتا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی مشکلات اور مصیبتیں اسلامی ممالک کی حکومتوں کو بھی نظر نہیں آتیں۔ اکثر عربی اور اسلامی ممالک اس مسئلے کی طرف توجہ ہی نہیں دیتیں گویا کہ کشمیری مسلمان ہی نہیں ہیں۔

گرچہ گزشتہ سات دہائیوں سے عالمی میڈیا نے کشمیر کے مسئلے کونظر انداز کیا ہوا ہے، علاقائی مشکلات اور مسائل بالخصوص گزشتہ دنوں بھارتی فوج کے ہاتھوں 21 سالہ کشمیری لیڈر کی شہادت اور اس کے بعد سینکڑوں بے گناہ کشمیریوں کے قتل عام کے باوجود، عالمی اور اسلامی میڈیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ہے۔ دنیا ایسی خاموش ہے گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔

کشمیریوں کا کہنا ہے کہ بھارتی سکیورٹی فورسسز نے اس قوم پر آگ برسایا ہے اور ابھی کرفیو نافذ کرکے روزمرہ زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ بھارتی فورسز کی جارحیت سے اب تک 43 افراد شہید اور 3 ہزار سے زائد شدید زخمی ہیں جن میں سے بعض کی آنکھیں نکال دی گئی ہیں۔

اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ ہندوستانی حکومت نے تمام علاقائی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر پابندی لگا دی ہے لہذا کسی بھی قسم کی خبر دوسروں تک پہنچانا مشکل ہوگیا ہے۔

جاری ہے ۔۔۔

اگلی  رپورٹ میں  کشمیریوں پر ڈھائے گئے مظالم پر کچھ زیادہ روشنی ڈالی جائے گے۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری