سی آئی اے امریکی صدارتی امیدواروں کو اپنی بریفنگز میں ایران کے بارے میں کیا کہتی ہے؟


سی آئی اے امریکی صدارتی امیدواروں کو اپنی بریفنگز میں ایران کے بارے میں کیا کہتی ہے؟

امریکہ کے صدارتی امیدواروں کو مسائل اور کارروائیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے مقصد کے پیش نظر امریکہ کی خفیہ ایجنسی ایران اور اس کے ارتقاء سے متعلق جو بریفنگز دیتی ہے ان میں ایران، عراق جنگ اور ڈاکٹر مصدق کے خلاف 16 اگست 1953ء کی بغاوت کی صورتحال سے لیکر تہران میں امریکی سفارت خانے کو تحویل میں لینے تک کون کون سے امور شامل ہوتے ہیں؟

خبر رساں ادارے تسنیم کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ کی سی آئی اے اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کی ڈیموکریٹک اور ریپبلیکن پارٹی کے انتخاباتی امیدواروں کو سیکیورٹی بریفنگز کے متعلق تسنیم کی گذشتہ رپورٹ میں مشاہدہ ہوا کہ یہ سیشنز دنیا کے ساتھ امیدواروں کو آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں سی آئی اے کی کارروائیوں اور دنیا میں امریکہ کی تازہ ترین پوزیشن واضح کرنے کے لئے منعقد کی جاتی تھیں تاہم یہ سیشنز سی آئی اے کی دنیا بھر میں فوجی اور انٹیلی جنس کارروائیوں سے متعلق زیادہ تفصیلی معلومات پر مشتمل نہیں تھی۔

جان ہیلگرسن نے اپنی کتاب "صدارتی امیدواروں کے لئے سی آئی اے کے بریفنگ اجلاس" میں ان بریفنگز کی تفصیلات کو آئزن ہاور کے بعد سے جارج ڈبلیو بش II کی انتظامیہ تک بیان کیا ہےاور زور دیا ہے کہ امیدوار حضرات سی آئی اے کی خفیہ کارروائیوں سے کسی وقت بھی آگاہ نہیں ہوتے اور ان بریفنگز میں عام انٹیلی جنس معلومات پر اکتفا کیاجاتا ہے۔

اس کتاب کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان بریفنگز میں جن امور کی طرف اشارہ کیا جا تا تھا ان میں ایران سے متعلق بھی کچھ مسائل کا ذکر آیا ہے جیسے کہ 1952ء میں ڈاکٹر مصدق کے خلاف امریکی فوجی بغاوت سمیت کارٹر اور ریگن مقابلے کے دوران ایران میں امریکی سفارت خانہ فتح کئے جانے کے نتائج وغیرہ۔

ان رپورٹوں میں خاص نکتہ یہ ہے کہ اس وقت ڈاکٹر مصدق کا تختہ الٹنے کے لئے امریکی خفیہ کارروائیوں کے بارے میں کوئی معلومات انتخاباتی امیدواروں کو نہیں دی جاتی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف صدور اور کچھ سینئر اہلکار ہی ان کارروائیوں کے بارے میں مطلع ہوا کرتے تھے۔

ذیل میں اس کتاب کےایران سے متعلق کچھ حصوں کا ذکر کیا جاتا ہے:

آئزن ہاور اور اسٹیونسن

اس اجلاس کا زیادہ تر وقت ایران کے امور کے بارے بحث میں صرف ہوا۔ آئزن ہاور اس بریفنگ اجلاس میں تقریبا 15 سے 20 منٹ تک لکھے ہوئے نوٹس کو پڑھنے میں لگاتے اور 10 سے 15 منٹ صرف اسی مواد کی بحث کے لئے وقف کیا کرتے تھے. ان کے پاس مسائل پر بہت کم سوالات تھے تاہم مختلف مسائل سے متعلق بہت سے نظریات اور خیالات رکھتے تھے اور ان کو بیان کیا کرتے تھے۔ ان کےخیالات زیادہ تر سوویت یونین، کوریا اور ایران کے کردار تک محدود تھے کیونکہ ایران میں 1952ء کی فوجی بغاوت کے دوران، تہران، واشنگٹن حکمرانوں اور سیاستدانوں کی نہایت توجہ کا مرکز بنا تھا۔ آئزن ہاور اور اس کے مخالف اسٹیونسن میں سے ہرایک کو اینٹلیجنس معلومات کا جو پیکٹ مل جا تا تھا وہ 20 مادوں پر مشتمل ہوتا تھا اور ہر ایک کے بارے ایک یا دو پیراگراف تشریح دی ہوئی ہوتی تھی۔ ان پیراگرافوں میں قومی مفادات کے حساب سے ترجیحات کی درجہ بندی کے ساتھ وضاحت ہوا کرتی تھی. سوویت یونین، ایران، شمالی کوریا، مصر، یوگوسلاویہ اور جاپان میں ہونے والے واقعات سب سے زیادہ اہمیت کے حامل تھے لیکن آئزن ہاور کے لئے ترتیب دئے گئے بریفنگز میٹنگز میں 50 سے زائد ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ملک عام طور پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ قابل توجہ تھا اور اس کے مسائل کی تحقیقات کے لیے کئی پیراگراف وقف تھے۔ وہ ملک ایران تھا جو صدارتی امیدواروں کے لئے بھی بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ تمام مسائل جو آئزن ہاور اور اسٹیونسن کے لئے بریفنگز میں بیان کئے جاتے اور ان کا جائزہ لیا جاتا، ان میں سے اسٹیونسن کے لئے ایران کے مسائل سب سے زیادہ دلچسپ  تھے۔

اپریل 1951ء میں ڈاکٹر محمد مصدق وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد انہوں نے ایک منصوبہ بندی کو قانونی شکل دیکر برطانیہ-ایران تیل کمپنی کو قومی تحویل میں لے لیا۔ اس کے چند مہینوں بعد ایران اور برطانیہ کے درمیان تعلقات بتدریج بگڑتے چلے گئے جبکہ 1952ء کے موسم خزاں میں ایک بحرانی کیفیت اختیار کرگئے۔ اکتوبر کے مہینے میں برطانیہ ایران سفارتی تعلقات منقطٰع ہوگئے۔ تیل، کریڈٹ اور معاوضہ پر برطانیہ کو تشویش تھی جبکہ امریکہ اس لئے فکرمند تھا کہ مصدق اگر تودہ پارٹی یا کمیونسٹ پارٹی کے ذریعے معزول ہوگیا تو ایران کی حکومت کمیونسٹوں کے ہتھے چڑھ جائیگی۔

اسٹیونسن اور آئزن ہاور صورتحال کو بڑی احتیاط کے ساتھ جانچنا چاہتے تھے۔ خوش قسمتی سے امریکہ کی خفیہ ایجنسی کو انتخابات کے بعد یہ خیال آیا کہ امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیاں ایران میں مصدق کا تختہ الٹنے کے لئے ایک خفیہ منظم کارروائی کرنے میں سنجیدگی سے کام کریں۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ جس خفیہ کارروائی نے ہونا تھا، بہتر تھا کہ انتخاباتی امیدواروں کو اس کا علم نہ ہو اس لئے یہ کام کارروائی کے بعد انجام پایا اور اسی طرح صرف صدر کواس کا علم ہوا۔

کارٹر

کارٹر نے اپنی صدارت کے دور کا آغاز انٹیلی جنس کے امور پر گہری نظر کے ساتھ کیا کیونکہ انتخابی مہم کے دوران بہت سے مسائل پران سے مشورہ کیا گیا تھا اور صدارت کے دوران بھی پی ڈی بی (PDB) اور اینٹلیجنس کی روزانہ کی رپورٹوں کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتا۔ جیسے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات، ایران میں امریکہ کے سفارت خانے پر قبضے کی طرح کے مسائل انٹیلی جنس اجلاسوں کی توجہ کا مرکز تھے۔ ان تبصروں کے دوران انہوں نے خفیہ اداروں کی اہم اور بےمثال معلومات دریافت کیں۔

ریگن اور بش

1980ء اور 1992ء کے درمیان 12 سالوں میں سی آئی اے نے امریکہ کے دو ریپبلکن صدور کو جو معلومات فراہم کیں ان میں دو مختلف نکات تھے۔ رونالڈ ریگن کو امریکہ کے انٹیلی جنس اور تحفظ کے مسائل پر بہت زیادہ معلومات نہیں تھیں اور بش سینئر تو خود سی آئی اے کے ایک اعلیٰ سطح کے اہلکار تھے۔ اس لئے خفیہ اداروں کے تمام امور کو بخوبی جانتے تھے۔ اس دوران ایران عراق جنگ اور روزانہ کی بنیاد پر اہم معلومات صدور کو دی جاتی تھیں۔ اس دور میں مشرق وسطیٰ کے لئے قومی انٹیلی جنس کے افسر رابرٹ ایمز، سعودی عرب اور ایران کے اندرونی معاملات سے صدر کو آگاہ کرتے تھے۔

نیشنل اینٹلیجنس کونسل کے ریچرڈ لحمان خطے میں ایران عراق جنگ اور سوویت یونین کے کردار کے اثرات کو صدر تک پہنچاتے۔ صدارتی انتخابات کے دوران بش اور ریگن کی مہم میں اور انتخابات کے بعد ان دونوں کے درمیان ایک اور تنازعہ پیش آیا کہ کیا ان امیدواروں کو بریفنگز صحافیوں کی موجودگی میں کرنی چاہئے؟

ریگن کے بارے میں نامہ نگاروں کو معلوم تھا کہ خفیہ معلومات کے سلسلے میں 4 اکتوبر کو ان سے مشاورت کی جائے گی۔ لہٰذا صحافی بیتابی کے ساتھ اس میٹنگ سے متعلق دلچسپ خبروں اور مدمقابل امیدواران کے ردعمل کا انتظار کر رہے تھے۔ ریگن نے پہلے سے کارٹر کو شاہ ایران کے تحفظ میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اس معلوماتی میٹنگ کے ساتھ اس کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنا سکتا تھا۔

حقیقت میں کارٹرنے ملاقات کے بعد بش کو ذمہ داری سونپ دی کہ اس مسئلے کو صحافیوں کے سامنے رکھے اور بش نے بھی اعلان کیا کہ میٹنگ بہت حساس تھی لہٰذا بش اور ریگن میں سے کسی نے اس میٹنگ کو کارٹر پر تنقید کرنے کے لئے استعمال نہ کیا۔

بش نے مزید بتایا کہ وہ حاصل ہونے والی معلومات سے متاثر ہیں اور اب اردگرد کی دنیا کے بارے میں اچھا نظریہ رکھتے ہیں۔
تاہم ریگن نے صرف اس جملے پر اکتفا کیا کہ یہ میٹنگ میرے لئے"دلچسپ" تھی۔

ریگن نے ان اجلاسوں میں سے مشرق وسطیٰ سے متعلق ایک میٹنگ کے دوران اس اجلاس کے چیئرمین کے جواب میں (جسمیں انہوں نے پوچھا تھا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے یا ایران میں امریکی یرغمالوں کے معاملے میں کیا منصوبہ بنایا ہے؟)، ریگن نے کہا تھا کہ کچھ کہنا نہیں چاہتا کیونکہ کہیں نادانستہ طور پر ایسی بات نہ کہہ جاؤں کہ ایران کی جانب سے یرغمال بنائے گئے امریکیوں کی رہائی میں تاخیر کا سبب بنے۔

انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ چونکہ آپشنز کے بارے میں معلومات نہ تھیں کہ کونسے آپشنز قابل عمل ہیں اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہ کہوں۔

ستم ظریفی یہ کہ، اگرچہ انتخابی مہم ریگن کی جیت پر اختتام پذیر ہوئی تاہم ایران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے نے اسے بری طرح متاثر کیا تھا۔

انتخابات سے پہلے کی میٹنگز جو سی آئی اے اور انٹیلی جنس افسران انتخاباتی امیدواروں کے ساتھ منعقد کیا کرتے تھے، ان سے یرغمالوں کے بارے میں سب سے زیادہ معلومات حاصل کرنے والا ریگن نہیں تھا بلکہ یہ تیسری پارٹی کے امیدوار جان اینڈرسن تھا جسے امیدواروں میں سب سے زیادہ اس کو مشورہ دیا گیا تھا۔ ٹرنر جو امیدواروں کو انٹیلی جنس رپورٹس فراہم کرنے کا ذمہ دار تھا، نےکہا تھا کہ ایرانی ذرائع نے اسے بتایا ہے کہ ایران ماضی کے اسلحے سے متعلق معاہدوں کے نفاذ کے بدلے یرغمالوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہے اور اس کے انجام کے بھی قریب پہنچ گئے ہیں۔

لیکن ٹرنر نے اس مسئلے کو صرف سی آئی اے کے ڈائریکٹر کو رپورٹ دینے پر اکتفا کیا اور انٹیلی جنس سینٹر کے ڈائریکٹر نے بھی حکومت کو یہی نقطہ نظر پیش کیا تھا لہٰذا اس سلسلے میں مزید کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

نومبر 1980ء کے اواخر سے جنوری 1981ء کے اوائل تک ریگن نےایران میں یرغمالوں کے بحران سے متعلق انٹیلی جنس کی چند خاص رپورٹوں کا مطالعہ کیا۔ یہ نوٹس حساس امریکی خفیہ آپریشنز میں شامل نہیں تھے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ریگن کوصدر منتخب کیا گیا تھا اور کارٹر سے صدارتی دفتر ابھی تک اپنی تحویل میں نہیں لیا تھا۔ اس وقت ریگن اپنے ذہن میں ایران میں یرغمالیوں کے بارے میں بہت سے سوالات رکھتا تھا لیکن پھر بھی سی آئی اے کی خفیہ انٹیلی جنس آپریشنز کے بارے میں اسے کوئی معلومات فراہم نہیں کی جاتی تھی۔

بل کلنٹن

1992ء میں ڈیموکریٹس کی بڑی ریلی کے کچھ ہی دیر بعد جارج بش کے قومی سلامتی کے مشیر برینٹ سکو کرافٹ نے واشنگٹن انٹیلی جنس افسر سموئیل برگر کے ساتھ رابطہ کیا تاکہ بل کلنٹن جو اس وقت کے کمانڈر تھے، کے لئے ایک بریفنگ میٹنگ منعقد کی جاسکے۔ اس وقت برگر جسے بعد میں کلنٹن کے قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر منتخب کیا گیا، کلنٹن حکومت میں خارجہ امور کے مشیر کے طور پر کام کر رہا تھا۔

سہ پہر 4 ستمبر1992ء کے اجلاس کے دوران وہ اس کا اینٹلیجنس افسر تھا جبکہ یہ میٹنگ ایک خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں منعقد ہوئی. بنیادی مسائل جو انٹیلی جنس رپورٹوں کا اصل موضوع تھا، میں روس کے بحران، سابق یوگوسلاویہ کی جنگ، عراق کی صورتحال، شمالی کوریا، چین اور ایران پر مشتمل تھے۔ انہوں نے ان ممالک میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے مسئلے پر زور دیا جبکہ امریکہ میں اقتصادی جاسوسی کے تناظر میں بھی کچھ مسائل اٹھائے گئے۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری