غازی علم الدین شہید کی زندگی پر ایک نظر


غازی علم الدین شہید کی زندگی پر ایک نظر

آج غازی علم الدین شہید کا یوم شہادت ہے۔ عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آج بھی زندہ جبکہ شاتم تاریخ میں نابود ہو گیا۔

پاکستانی کالم نگار مسعود چوہدری نے اپنے مقالے میں غازی علم الدین شہید کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ان کی زندگی پر ایک جامع نوٹ لکھا ہے جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کبھی کسی ناعاقبت اندیش نے ناموس رسالت پر طعنہ زنی کی ہے عشاقان مصطفی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے سربلندی ملت میں اپنا حصہ ڈالا ہے.

عشق مصطفی صلہ اللہ علیہ و و آلہ وسلم ایسا خذینہ ہے جس کی نہ تو قیمت کا تعین ممکن ہے اور نا ہی تمام کائنات میں مثل ہی ڈھونڈنا ممکن ہے...

تاریخ میں ایسے چند ایک ہی کردار موجود ہیں جن کے غیر فطری و غیر ارادی افعال نے تاریخ انسانی پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور غازی علم الدین شہید کا تاریخی کردار بھی انہی میں سے ایک ہے. جبکہ 1929 میں لاہور کی آبادی پانچ لاکھ کے لگ بھگ تھی اس وقت غازی علم الدین شہید کا نماز جنازہ ادا کرنے والوں کی تعداد چھ لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی اور نماز جنازہ ساڑھے پانچ میل پر پھیلا ہوا تھا.

پیدائش و ابتدائی ایام

علم الدین 4 دسمبر 1908ء بمطابق 8 ذیقعدہ 1366ء کو لاہور پنجاب پاکستان کے کوچہ چابک سوارں میں طالع مند نامی بڑھئی (یعنی ترکھان) کے گھر میں پیدا ہوئے. علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسے میں حاصل کی اورتعلیم سے فراغت کے بعد اپ نے اپنے آبائی پِیشہ کو اختیارکیا۔ آپکے دو بھائی تھے جن میں سے ایک سرکاری ملازمت کرتے تھے اور دوسرے میاں محمد امین صاحب تھے. میاں محمد امین صاحب بھی طالع مند صاحب کے ساتھ بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ اس خاندان کی شرافت و کاریگری کی دھوم دور دور تک تھی. آپکا گھرانہ متوسط گھرانوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ کاریگری میں ملکہ حاصل کر چکنے کے بعد اپنے بنوں بازار کوہاٹ میں اپنا فرنیچر سازی کا کام شروع کیا اور رزق حلال کی تگ و دو میں مصروف ہو گئے...

1928ء اور اسکے واقعات

"راجپال" نامی لاہور کے ایک ناشر نے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ایک گستاخانہ کتاب "رنگیلا رسول" شائع کی. اس دل آزارعمل نے اہل ایمان کے جذبات کو مجروح کیا اورمسلمانوں میں سخت غم و غصہ پیدا ہوا۔ جب مسلمان رہنماؤں نے اس کتاب کو ضبط کرنے اور ناشر کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا تو انگریز حکومت  کے مجسٹریٹ نے "راجپال" کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ اس کی علاوہ کتاب کو ضبط کرنے کے مطالبے کو رد کر دیا گیا. اس پر ظلم یہ ہوا کہ "راجپال" نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کردیا. اب مسلمانوں کا غم و غصہ گم آسمان کو چھونے لگا اور گلی گلی احتجاج شروع ہو گیا۔

بجا ئے کہ راجپال کو سرزنش کی جاتی، دو سپاہی اور ایک حوالدار اسکی حفاظت پر مامور کر دیے گئے اور ساتھ ہی ساتھ روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریز حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرکے مسلمان رہنماؤں کو گرفتار کرنا شروع کردیا. بلا شبہ حکومت وقت ملعون راجپال کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔

ملعون راجپال کو جہنم واصل کرنے کی کوششیں

24 ستمبر 1928 کو لاہور کے ایک شخص خدابخش نے اس شاتم رسول "راجپال" کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا، تاہم اس نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔ خدابخش گرفتار ہو گیا اور اسے 7 سال قید کی سزاسنائی گئی.

افغانستان کا ایک شخص عبدالعزیزایک مرد مجاہد کفن باندھ کر گھر سے نکلا. اس نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود ہی نہیں تھا اور سوامی ستیانند راجپال کا دوست اس کی جگہ موجود تھا۔ غلط فہمی میں عبدالعزیز نے سوامی ستیانند کو ہی راجپال سمجھ کر قتل دیا۔ عبدالعزیز کو انگریز حکومت  نے گرفتار کیا اور 14 سال کی سزا سنائی.

علم الدین اور اسکے دوست اور راجپال کے قتل کا پروگرام

مختلف روایات اور علماء کے اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ علم الدین ایک روز دلی دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے۔ وہاں راجپال کے خلاف تقریریں ہورہی تھیں۔ جس بات نے علم الدین کو سب سے زیادہ آگ بگولہ کیا وہ راجپال کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی ہی تھی۔ آج کے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مانند علم الدین بھی اس بات کو برداشت نہیں کر سکا کہ کوئی اسکی محبوب ترین ہستی کی شان میں گستاخی کرے .

اس دور میں دلی دروازہ لاہور سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ تھا اور تمام تحریکوں کا گڑھ بھی. یہاں سے جو بات کی جاتی تھی وہ ملک کے طول عرض میں با آسانی پہنچتی تھی۔ یہاں پر ہونے والی گفتگو اپنے آپ میں ایک سند کی حیثیت رکھتی تھی۔ لیکن علم الدین اس وقت کا روشن خیال شخصیت کا مالک انسان تھا۔ اس نے جو سنا اس پر یقین نہیں کیا بلکہ اپنے والد محترم سے تائید حاصل کی۔

اپنے دوست ''شیدے'' اور اسکے ایک دوست کی مدد سے راجپال کا حلیہ، ہسپتال روڈ پر واقع کتابوں کی دکان کا پتہ اور دیگر معلومات اکٹھی کی گئیں.

یہاں یہ روایت بھی نقل کی جاتی ہے کہ بعد از یقین ایک رات اس کا دل بہت بے قرار تھا جہاں پھر ایک رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے، انہوں نے کہا: پیارے نبی صلی اللہ علیہ و و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی ہو رہی ہے اور تم ابھی تک سورہے ہو! اٹھو جلدی کرو۔ علم الدین ہڑبڑا کر اٹھے اور سیدھے شیدے کے گھر پہنچے۔

پتہ چلا کہ شیدے کو بھی ویسا ہی خواب نظرآیا تھا۔ دونوں ہی کو بزرگ نے "راجپال" کو قتل کرنے کو کہا۔ دونوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کون یہ کام کرے، کیونکہ دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے دونوں نے فیصلہ کیا۔ تین مرتبہ علم الدین کے نام کی پرچی نکلی تو شیدے کو ہار ماننی پڑی۔ علم الدین ہی شاتمِ رسول کا فیصلہ کرنے پر مامور ہوئے۔

اس تمام روایت کی صحت کو زیر بحث لائے بغیر ہم آ گے بڑھتے ہیں ....

راجپال کا قتل

6 اپریل 1929ء کو ایک بجے دوپہر غازی علم الدین نے کھوکھے والے کی نشآندہی پر راجپال کو اسکی دوکان واقع ہسپتال روڈ انار کلی نزد مزار قطب الدین ایبک لاہور میں داخل ہوتے ہوئے پہچانا اور جیسے ہی راجپال اپنی نشست پر بیٹھا آپ نے راجپال کو للکارا ، چھری نکالی، اور راجپال کے جگر میں پیوست کر دی۔ عاشق کے ایک ہی وار نے  راجپال کا کام تمام کر دیا۔ تھانے انارکلی پولیس کو دکان کے ایک ملازم نے اطلاع دی اور غازی علم الدین نے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے گرفتاری پیش کر دی .

یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگر آپ چاہتے تو فرار ہو سکتے تھے لیکن آپ نے فرار ہونے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی۔

راجپال کے قتل کا مقدمہ اور اپیلیں

مقدمہ لوئس نامی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا جس نے غازی علم الدین پر فرد جرم عائد کرکے صفائی کا موقع دیئے بغیر مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کردیا۔

مورخہ 22 مئی1929 کو غازی علم الدین کو سیشن کورٹ  کے نیپ نامی انگریز جج نے سزائے موت کا حکم سنایا۔ غازی علم الدین کی جانب سے سلیم بارایٹ لاء پیش ہوئے اور آپ کے حق میں دلائل دیئے مگر تمام دلائل بے سود ثابت ہوئے۔

ہائی کورٹ میں اپیل کے لیے اس وقت کے سب سے بڑے اور مشہور وکیل محمد علی جناح کی خدمات حاصل کی گئیں۔ آپ بمبئی سے لاہور تشریف لائے اور آپکی معاونت بیرسٹر فرخ حسین نے کی۔

یہاں یہ روایت بھی مشہور ہے کہ  حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے غازی علم الدین کو کہا کہ ''آپ اس قتل کا انکار کر دو کہ آپ نے قتل نہیں کیا! آپ کی سزا ختم کروانا میری ذمہ داری ہے'' جس کے جواب میں غازی علم الدین نے جواب دیا کہ '' تمام زندگی میں ایک ہی تو کام کیا ہے اور آپ اس سے بھی مکرنے کا مشورہ دے رہے ہیں!''

7  جولائی 1929ء کو ہائی کورٹ نے غازی علم الدین کو سزائے موت کا حکم سنا دیا. 15 جولائی 1929ء کو ہائی کورٹ کے لارجربنچ نے بھی سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا اور غازی علم الدین کی اپیل خارج کردی.

شہادت

اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب غازی علم دین کو دی گئی تو آپ نے فرمایا "شکر الحمداللہ! میں یہی چاہتا تھا۔ بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کے بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا میرے لئے ہزار ابدی سکون وراحت ہے"۔

31  اکتوبر 1929 بروز جمعرات کو میانوالی جیل میں آپ کو شہید کر دیا گیا .

حسنِ یوسف پہ کٹی مصر میں انگُشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردانِ عرب

لاش حوالگی اور تدفین

4نومبر 1929 کو جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ لے کر مسلمان ذمہ داران  کے ایک وفد نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی ،جن میں علامہ ڈاکٹر محمداقبال، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر محمد شفیع، خلیفہ شجاع، میاں امیرالدین، سر فضل حسین، مولانا غلام محی الدین قصوری اور دیگر صاحبان شامل تھے اور یقین دلایا کہ تدفین پرامن ہونے کی ذمہ داری ہے۔

13 نومبر 1929 کو مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن اور سید مراتب علی شاہ کی سربراہی میں ایک وفد میانوالی روانہ ہوا اور 14 نومبر 1929 کو جسد خاکی وصول کیا.

15 نومبر 1929 کو محکمہ ریلوے نے غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا جسد خاکی لاہور چھاؤنی میں علامہ اقبال اور سر محمد شفیع کے حوالے کیا۔

اس وقت غازی علم الدین شہید کا نماز جنازہ ادا کرنے والوں کی تعداد چھ لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی اور نماز جنازہ ساڑھے پانچ میل پر پھیلا ہوا تھا۔

آپکی نماز جنازہ خطیب مسجد وزیر خان قاری شمس الدین نے پڑھائی. سیدمحمد دیدارعلی شاہ محدث لاہوری اور علامہ اقبال نے غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا.

اس موقع پر ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ "یہ ترکھانون کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا "

آپ کی آخری آرام گاہ میانی صاحب قبرستان بہاولپور روڈ میں ایک نمایاں مقام پر موجود ہے۔

سرِ مزارِ شہیداں یکی عنان درکش
کہ بی زبانی ما حرفِ گفتنی دارد

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری