حکومت پاکستان کی مختلف جماعتوں سے متعلق دوہری پالیسی


حکومت پاکستان کی مختلف جماعتوں سے متعلق دوہری پالیسی

سابق سینیٹر اور جعفریہ الائنس کے سربراہ نے کہا ہے کہ حکومت خود بعض جماعتوں کو کالعدم قرار دیتی ہے، پھر ان سے ملاقاتیں بھی کی جاتی ہیں اور یہاں تک کہ وزیر داخلہ پھر انہیں اسلام آباد میں فرقہ وارانہ پروگرام کرنے کی اجازتیں بھی دیتی ہے لہٰذا اس معاملے میں حکومت پوری طرح قصور وار ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم کے نمائندے نے سابق سینیٹر اور جعفریہ الائنس کے سربراہ علامہ محمد عباس کمیلی سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی کی حالیہ صورتحال کے بارے میں ایک مکالمہ ترتیب دیا ہے جو پیش خدمت ہے:

تسنیم نیوز: سندھ میں جاری صورتحال کے سلسلہ میں گزشتہ دنوں آپ کی وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے اہم ملاقات ہوئی، کیسی رہی، کن اہم موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا؟

علامہ محمد عباس کمیلی: بہت سے معاملات زیر بحث آئے، کافی معاملات کسی حد تک حل ہوئے ہیں، امید کرتے ہیں کہ عمل درآمد ہوگا۔

تسنیم نیوز: کراچی میں پرامن افراد اور علماء کی پکڑ دھکڑ کا تازہ سلسلہ شروع ہوا ہے، اس حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ کا کیا کہنا تھا؟

علامہ محمد عباس کمیلی: یہ لوگ فی الحال یہ نہیں بتا رہے کہ پکڑ دھکڑ کیوں شروع کی گئی ہے، کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف دوسرے کیسز ہیں، دوسرے کیسز ہیں یا تیسرے کیسز ہیں، تو ایسے نازک موقع پر کیوں یہ کاروائیاں کی جارہی ہیں، پرانے کیسز ہیں، اتنا عرصہ گزر گیا، اب ٹینش کیوں بنائی جارہی ہے، حکومت نے انتہائی غلط ٹائمنگ کا انتخاب کیا ہے، فیصل رضا عابدی سے متعلق وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ ان سے برآمد ہونے والے اسلحہ میں سے کسی ایک کا بھی لائسنس نہیں ہے، اگر دکھا دیں تو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔

تسنیم نیوز: علامہ مرزا یوسف کے حوالہ سے کیا کہا گیا، انہیں کیوں نہیں چھوڑا جارہا؟

علامہ محمد عباس کمیلی: ان کے حوالے سے مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ان پر فرقہ واریت کا کوئی کیس نہیں ہے، ان پر کچھ اور نوعیت کے کیسز ہیں، حالیہ فرقہ وارانہ مسائل میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ اگر یہ مسائل پرانے ہیں تو انہیں پہلے کیوں حل نہ کیا گیا، اس موقع کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ اس وقت جب کراچی شہر میں آگ لگ رہی ہے، تو ایسے مسائل میں ہاتھ ڈالنے کی حکومت کو کیا ضرورت تھی۔

تسنیم نیوز: شیخ محسن نجفی جن کے توسط سے پاکستان میں غریب طلباء علم کے زیور سے آراستہ ہوتے ہیں، ان کی شہریت منسوخ کرکے ان کے اکاؤنٹ منجمند کر دیئے گئے ہیں، کیا کہیں گے؟

علامہ محمد عباس کمیلی: اس کا مجھے نہیں پتہ کہ ان کا کیا مسئلہ ہے، میں کراچی میں ہوں۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے

خلاف کیسز کس نوعیت کے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے بند تو ہمیں بھی ہونا پڑا ہے، قانون سے مثتثنیٰ تو کوئی بھی نہیں ہے، ان کے خلاف اگر کوئی کیسز ہیں تو ان کا دفاع کیا جائے، اسی طرح اگر میرے خلاف یا مرزا صاحب کے خلاف کیسز ہیں تو انہیں ڈی فینڈ کیا جائے۔ حکومت اس بات کا خیال رکھے کہ انصاف ہونا چاہیے۔

تسنیم نیوز: خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ کچھ روز پہلے وزیر داخلہ سے ملنے والا وفد جس میں کالعدم جماعتوں کے افراد بھی شامل تھے، اسی ملاقات کا پیش خیمہ ہے کہ یہ تمام کارروائیاں کی جارہی ہیں؟ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

علامہ محمد عباس کمیلی: بھائی دیکھیں کالعدم تنظیموں کا کھیل تو سمجھ سے بالاتر ہے، حکومت خود انہیں کالعدم قرار دیتی ہے، پھر ان سے ملاقاتیں بھی کی جاتی ہیں۔ وزیر داخلہ پھر انہیں اسلام آباد میں فرقہ وارانہ پروگرام کرنے کی اجازتیں بھی دیتی ہے۔ اس معاملے میں حکومت پوری طرح قصور وار ہے۔ یا تو پھر ان فرقہ وارانہ جماعتوں کو کالعدم قرار نہ دو، اگر ان سے گٹھ جوڑ قائم رکھنا ہے۔ لیکن اگر کالعدم قرار دیتے ہو تو انہیں سر پر نہ بٹھاؤ اور انہیں استعمال نہ کرو، انہیں کھلی چھوٹ کیوں دیتے ہو، پاکستان میں انہیں حکومت نے کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے، جو جی میں آئے کریں۔

تسنیم نیوز: ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا میں بردار اسلامی ملک کے خلاف زہر اگلا جارہا ہے اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ یمنی خداںخواستہ خانہ کعبہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ درحقیقت یمن اپنے دفاع کی جنگ لڑ رہا ہے، کیا کہیں گے؟

علامہ محمد عباس کمیلی: میرا سوال ہے کہ کیا یمنی ہوں یا دیگر مسلمان کوئی مکے کو فتح کرنے جاسکتا ہے؟ کوئی مسلمان چاہے سنی ہو یا شیعہ کعبے کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، یہ سب بکواس اور سعودی پروپیگنڈا ہے، یہ سب جھوٹ کبھی بھی ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ ایسی سازشیں کرتے ہوئے شیعہ سنی مسئلے کو پوری دنیا میں بھڑکایا جارہا ہے، حالانکہ درحقیقت ایسا خاص مسئلہ نہیں ہے۔ اسی طرح شام، عراق اور اب موصل میں یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ظاہر ہے بیرونی فنڈنگ وہاں بھی ہے اور یہاں بھی ہے۔

تسنیم نیوز: چیف منسٹر سندھ سید مراد علی شاہ کے ساتھ دیگر کیا موضوعات زیر بحث آئے؟

علامہ محمد عباس کمیلی: بھائی وہ اپنی داستانیں سنا رہے تھے کہ ہم نے کراچی میں اتنے ہائی پروفائل کلرز اور قاتلوں کو پکڑ لیا، لیکن جب ہم نے حالیہ صورتحال میں شیعہ علماء کی گرفتاری کا مسئلہ اٹھایا تو انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ان کارروائیوں کی ٹائمنگ غلط تھی، ایسے وقت میں شیعہ علماء پر ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے تھا اور ان کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تسنیم نیوز: مبینہ طور پر رینجرز نے جس انداز میں کراچی میں مساجد اور امام بارگاہوں پر چھاپے مارے، تقدس کو پامال کیا گیا، بعد ازاں  قومی میڈیا میں تردید بھی آئی لیکن ناکافی ثبوت کے طور پر ایک پولیس اہلکار کی تصویر دی گئی، کیا اس معاملہ کو وزیر اعلیٰ سندھ کے ساتھ زیر بحث لایا گیا؟

علامہ محمد عباس کمیلی: بالکل اس پر بھی بات ہوئی ہے، لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ رینجرز نے اس بات سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے خلاف غلط پروپیگنڈا ہو رہا ہے۔ ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا البتہ رینجرز سے ہماری بات نہیں ہوئی جبکہ مراد علی شاہ سے اس حوالے سے بات کی گئی ہے۔

تسنیم نیوز: کیا  کراچی سمیت ملک بھر میں شروع ہونے والی نئی ٹارگٹ کلنگ کی لہر کے حوالہ سے اس ملاقات میں بات ہوئی؟

علامہ محمد عباس کمیلی: بالکل اصل مسئلہ تو یہی ہے، ہم نے وزیر اعلیٰ سندھ سے کہا ہے کہ اس اہم مسئلہ کو دیکھیں، خاص طور پر خواتین کی مجالس پر جو حملے ہو رہے ہیں۔ یہ ٹرینڈ پہلے نہیں تھا، یہ سب سے زیادہ خطرناک ہے، اس کو کنٹرول کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس اہم مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے دوسرا سب کچھ کیا جارہا ہے، خواتین کی مجالس تو ہر گھر میں ہوتی ہیں۔ اگر گھروں پر حملے شروع ہو جائیں گے تو حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔

تسنیم نیوز: تو اس حوالے سے وزیراعلیٰ کا کیا جواب تھا؟

علامہ محمد عباس کمیلی: ہاں کریں گے، ہم نے کہا یہ جواب ناکافی ہے کہ پولیس کو علم نہیں تھا کہ یہاں مجلس ہو رہی ہے، ہر گھر میں زنانہ مجلس ہوتی ہے، ایس ایچ او کو علم ہونا چاہیے تھا کہ اس کے محلے میں کتنی مجالس ہو رہی ہیں۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری