فرقہ واریت پر نظر رکھنا حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے


فرقہ واریت پر نظر رکھنا حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے

سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ترجمان نے کہا ہے کہ فرقہ واریت پر نظر رکھنا ایک اہم ذمے داری ہے جو حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے کہ وہ ایسے عناصر پر نظر رکھیں جو اس قسم کی شورش پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

تسنیم خبرساں ادارہ: تعارف: آپ پاکستان کے صوبہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ترجمان ہیں۔

خواجہ اظہار الحسن 26 اکتوبر1971 میں پیدا ہوئے۔ آپ متعدد بار سندھ اسمبلی کے رکن و وزیر رہ چکے ہیں۔ آپ کو آپریٹیو قائمہ کمیٹی کے چیئرپرسن معلومات اور تاریخی دستاویز ہیں۔

آپ رکن قائمہ کمیٹی کچی آبادیاں و مجلس برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات بھی ہیں۔

رکن اسمبلی خواجہ اظہار الحسن سے نمائندہ تسنیم نیوز کی خصوصی نشست ہوئی جس میں  خواجہ اظہار الحسن نے بتایا کہ انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز  اے پی ایم ایس او سے کیا، کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی،  آپ سیاست کا ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ملکی اور اہم امور پر تسنیم نیوز سے خصوصی گفتگو  کی جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

تسنیم: ایم کیو ایم کے دور میں کراچی میں فرقہ واریت میں ہونے والے فسادات کم ہوگئے تھے، اہل سنت و اہل تشیع تنازعات کے حل کے لئے ایم کیو ایم کا ایک مؤثر کردار ہوتا تھا، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم اس معاملے میں کمزور ہوگئی ہے؟ اہل سنت اور اہل تشیع میں دوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔

خواجہ اظہار الحسن: ایم کیو ایم ابھی بھی فرقہ واریت کو کم اور کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن ظاہرا ایم کیو ایم کی صورتحال غیر یقینی ہوگئی تھی، جس کے باعث ہم بہت سارے  معاملات سے نبردآزما تھے، کراچی میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کئی سالوں سے کچھ عناصر کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی عرصوں سے اہل سنت اور اہل تشیع میں ہم آہنگی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ایسے فسادات نے لوگوں کے پہلے اپنے گھروں کو نقصان پہنچایاہے۔ ان کے گھر جلتے ہیں، ملک کو بعد میں نقصان پہنچتا ہے لیکن پہلے ان کے اپنے گھر تباہ ہوجاتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ کراچی میں کوئی ایسی سازش کامیاب ہوگی۔ اب تک جو بھی وقتی طور پر واقعات ہوئے ہیں، اس میں بھی عوام سمجھ چکی ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات پیدا کرنے کی ایک فضا پیدا کرنے اور یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ میرا خیال ہے کہ دیگر ملک کے حصوں کی طرح فرقہ واریت کراچی میں نہیں ہے۔ یہ اہم ذمے داری، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے کہ وہ ایسے عناصر پر نظر رکھیں جو اس قسم کی شورش پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی فضا بنانا چاہتے ہیں۔

تسنیم: بعض ایرانی خبررساں ادارے اور ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں نواز حکومت کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کر رہی؟

خواجہ اظہار الحسن: میں پھر وہی بات کرونگا کہ اگر 18 ویں ترمیم میں اختیارات نواز شریف کو دیتے ہیں، تو پھر اداروں، وفاق یا صوبوں کے درمیان اگر تناؤ ہے، وہ ختم کرنے کی ذمے داری تو پھر پرائم منسٹر کے ساتھ ساتھ چیف منسٹر پر بھی ہے۔ یہ موقف اگر بعض ایرانی برادران کا ہے تو میں اس تاثر کو حقیقی نہیں مانوں گا کیونکہ ا س میں وفاق یا کسی صوبے کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس میں نا اہلی ضرور ہے، آپس کی کوآرڈی نیشن کی کمی کی وجہ سے۔ یہ اہم معاملہ ہے، اگر ایسا معاملہ یا تحفظات کسی ملک کی جانب سے آجاتے ہیں، تو میرے خیال میں یہ حکومت کے لئے اچھی بات اور مفاد میں نہیں ہے۔

تسنیم: کیا دونوں سفارت خانوں کی اس میں خامی ہے کہ کوآرڈی نیشن کی اس کمی میں وہ درست کردار ادا نہیں کرسکے، جیسے ایران کے صدر حسن روحانی جب پاکستان کے دورے پر آئے تو بعض ایرانی خبررساں اداروں اور ماہرین نے شکوہ کیا کہ ایران کے خلاف پاکستانی میڈیا میں بہت کچھ لکھا گیا۔کل بھوشن یادو کا معاملہ اٹھا، تو را کا معاملہ بھی سامنے آیا، را کا جب معاملہ آتا ہے تو ایم کیو ایم کا نام درمیان میں ضرور آجاتا ہے۔ جیسے چابہار بندرگاہ کا معاملہ ہو، یا ایران میں بھارتی ایجنٹوں کے معاملات ہوں کہ وہ پاک چائنا اقتصادی راہدری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایران کی کوئی سازش ہوسکتی ہے یا بھارت ایران کو استعمال کررہا ہے یا بھارت کا خود اپنا یجنڈا ہے؟

خواجہ اظہار الحسن: کسی دوسرے ملک یا پڑوسی ممالک پر الزام لگانے سے زیادہ بہتر نہیں ہے کہ ہم اپنی سرزمین پر فلٹر لگالیں۔ یعنی اگر ہماری سرزمین کے خلاف کاروائی ہو رہی ہے، چاہے وہ کہیں بھی بیٹھ کر یا کسی کے بھی ایما پر کر رہا ہو، لیکن اس کو ناکام بنانے کی ذمے داری تو ہماری اندرونی ہے۔ چاہے وہ بلوچستان میں وکلا ء پر ہونے والے حملے ہوں ،اہل تشیع یا اہل سنت کی ٹارگٹ کلنگ ہو یا پھر را ایجنٹس کا پکڑے جانا۔ ایسے ایجنٹ اگر یہاں آجاتے ہیں تو سالوں سال رہتے ہیں، پنپتے ہیں اور یہاں کوئی کاروائی کرتے ہیں تو پھر ہماری بھی اندرونی انٹیلی جنس کی استعداد کار کا ایشو ہے۔ صرف الزام لگا کر بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

تسنیم: کالعدم جماعتوں کی جانب سے یا کسی مذہبی جماعتوں سے اگر ایسے الزامات لگائے جاتے ہیں، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف پوائنٹ اسکورنگ کر رہے ہیں؟

خواجہ اظہار الحسن: کالعدم تنظیمیں جو الزام تراشیاں کرتی ہیں تو یہ سب ان کے ذاتی ایجنڈے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کالعدم جماعتوں یا مذہبی جماعتوں کی الزام تراشی کیلئے حکومتی سطح پر کوئی کوآرڈی نیشن کمیٹی ضرور بننی چاہیے۔ اتنے بڑے واقعات کے بعد بھی آج دیکھیں کہ وفاق و صوبے کی طرف سے کوئی ایسی کوآرڈی نیشن کیوں نہیں بنائی گئی جو دو فریقوں کو جن کے درمیان اگر کوئی تناؤ ہے، بجائے اس معاملے کو میڈیا میں ہوا دینے کے، ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کچھ چارٹرڈ کیوں نہ منظور کیا جائے۔ جب حکومتیں نہیں سنیں گی تو ظاہر ہے تمام مکتبہ فکر کے لوگ، میڈیا کے ذریعے اس کا سہارا لیکر اپنے اپنے الزامات اور دل کی بھڑاس نکالیں گے۔

تسنیم: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نواز حکومت کی پالسیوں سے پڑوسی ممالک دور ہوتے جارہے ہیں، ماضی کی طرح تعلقات نہیں رہے؟ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان، سعودیہ کے قریب جا رہا ہے تو ایران سے دور ہوگیا، افغانستان بھی دور ہوگیا، بھارت کے ساتھ تو کبھی ہمارے اچھے تعلقات تھے ہی نہیں۔ یعنی جو پڑوس ہے وہ پڑوسی سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

خواجہ اظہار الحسن: بالکل درست بات ہے، خارجہ پالیسی کا بہت بڑا ایشو ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہت ساری شفافیت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مجموعی جو تاثر آرہا ہے۔ اس سے اگر تمام ممالک سے تعلقات استوار نہ رہے تو یہ بہتر نہیں ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے بعد بھی بہتری نہیں آئی، روز اول سے ہماری خارجہ پالیسی بھی متاثر رہی، سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اگر ایک صفحے میں نہیں ہیں تو اس کی وجہ سے بھی خارجہ پالیسی پر نتائج مرتب ہوتے ہیں۔یہاں تو پالیسی ہی نہیں ہے، اگر خارجہ پالیسی ہوتی تو وزیر خارجہ بھی ہوتے۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری