ایرانی سینما کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں


ایرانی سینما کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں

ڈائریکٹر جنرل پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس، معرو ف فنکار اور فلم ڈائریکٹر سید جمال شاہ نے ایرانی آرٹسٹوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہوئے تاکید کی ہے کہ "ایرانی بہت زبردست کام کررہے ہیں، ایرانی خطاطی اور موسیقی بہت بہترین ہیں، میں چاہوں گا کہ ایرانی آرٹسٹ اور موسیقار پاکستان آئیں، اور یہاں اپنے فن کا مظاہرہ کریں، ہمارے لوگ وہاں جائیں اور آپس میں مل کر کام کریں۔"

خبررساں ادارے تسنیم کے نمائندے نے ڈائریکٹر جنرل پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس، معرو ف فنکار، فلم ڈائریکٹر سید جمال شاہ سے بات چیت کرتے ہوئے ایک مکالمہ ترتیب دیا ہے جو قارئین و صارفین کے پیش خدمت ہے۔

تسنیم نیوز: پاک ایران ثقافتی معاہدوں کے ثمرات سامنے آنے شروع ہوئے ہیں، جن کے تحت اب ایرانی موویز پاکستانی سینماؤں میں دکھائی جائیں گی، پاکستانی معاشرہ پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

سید جمال شاہ: دیکھیں ایرانی سینما ایک ترقی یافتہ سینما ہے، پوری دنیا میں ایرانی سینما کو بہت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور ایرانی سینما میں اچھی بات یہ ہے کہ وہ تصنع سے باہر ہے، حقیقت کے بہت قریب ہے اور زندگی کے احترام والا سینما ہے، تو اس قسم کے سینما کا پاکستان میں دکھایا جانا بہت ہی ضروری ہے، ایک تو یہ بات ہے کہ ایرانی اور پاکستانی ثقافت میں زیادہ فرق نہیں ہے، بہت ساری چیزیں مشترک ہیں، اور ان کے سینما کا انداز بہت ہی ماڈرن اور عصر حاضر کے عین مطابق ہے اور ایرانی سینما کمرشل نہیں ہے۔

ہمارے ہاں بہت زیادہ مشہور انڈین سینما ہے، انڈین سینما بہت زیادہ کمرشل ہے، اور اکثر انڈین سینما ہماری روایات اور ثقافتی اقدار سے مطابقت بھی نہیں رکھتا، بحیثیت فلم میکر میں سمجھتا ہوں کہ ترک اور ایرانی سینما پاکستان میں دکھایا جانا چاہیے۔

تسنیم نیوز: ایرانی سینما نے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا، ثقافتی تبادلوں کے پروگرام میں کیا ایرانی فلم پروڈکشن سے متعلق ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور سیکھنے سکھانے کا عمل بھی شامل ہونا چاہئے؟

سید جمال شاہ: ظاہر ہے جب ایرانی فلمیں پاکستان میں شروع ہوں گی، تو پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے ذریعے ہم سینما کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے، اس کوشش کے تحت ہم ٹریننگز بھی اناؤنس کریں گے، فلم کے مختلف شعبوں اور فلم ٹریڈ پر بھی کام کریں گے، کوشش ہماری ہو گی کہ جائنٹ وینچرز ہوں، ایرانی فلم میکرز یہاں آئیں، ورکشاپس کریں، پہلے بھی این سی اے میں آتے رہے ہیں، لیکن اب زیادہ تواتر کے ساتھ آئیں، اور ہمارے ینگ فلم میکرز کے ساتھ ورکشاپس کریں اور ہمارے تجربہ کار فلم میکرز کے ساتھ مل کر فلمیں بنائی جائیں، بہت سے موضوعات ایسے ہیں جن پر ہم مل کر فلمیں بنا سکتے ہیں۔

تسنیم نیوز: ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کی سینما انڈسٹری زوال کا شکار ہے، پورے ملک میں سینما گھر بند ہو چکے ہیں، کیا اچھی اور معیاری ایرانی فلموں کے پاکستان آنے سے بہتری آسکتی ہے؟

سید جمال شاہ: میرے خیال میں ان فلموں سے پاکستانی ناظرین ٹرین ہوں گے، چونکہ یہ بہت اعلیٰ سطح کی فلمیں ہیں۔ چونکہ ان فلموں کے کرداروں کو بہت غور سے اور مشاہدے کے بعد چنا جاتا ہے، اور بہت تجربہ کار لوگ کام کر رہے ہوتے ہیں، تو ان کا Artistic merit بہت بلند ہے، ان فلموں سے نہ صرف یہ کہ ہماری audience  ٹرین ہو گی، بلکہ ہمارے فلم میکرز سیکھیں گے، لیکن ہمارا اپنا اسلوب ہونا چاہیے، پاکستانی سینما کے زوال کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آنکھیں بند کرے انڈین سینما کی تقلید شروع کر دی گئی۔ اب انڈین سینما ایک خاص قسم کا سینما ہے جو وہاں کے کلچر کے لئے ٹھیک ہے، انڈین فلم میکرز فلموں میں کمرشل مصالہ ڈال کر فلموں کو لوگوں کے لئے تیار کرتے ہیں، ہم یہ کام نہیں کر سکتے، اس وجہ سے پاکستان میں بھونڈی اور عجیب و غریب فلمیں بنائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے عوام کا اعتماد پاکستانی سینما سے اٹھتا چلا گیا، لوگوں نے پاکستانی فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں، اس وجہ سے پاکستان سینما زوال پذیر ہوا، سینما ہاؤسز ختم ہوئے، اب دوبارہ پاکستانی سینما کی بحالی کی طرف اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، یہ بہت اہم ہے، چونکہ آج کل کے فلم میکرز کی فلمز حقیقت کے قریب ہیں، زندگی کے بارے میں ہیں، زندگی میں ہمارے اختلافات کے بارے میں ہیں، جدوجہد کے بارے میں ہیں، اور فلم میکنگ کا انداز بھی مختلف ہے، جو ایرانی اور ترک سینما کے قریب تر ہے۔

تسنیم نیوز: ایرانی فلم بنانے میں چھ سات گاڑیاں اور ایک دو ہیلی کاپٹر تباہ نہیں ہوتے، اس کے باوجود کم خرچ اور بالا نشیں والی بات ہوتی ہے، مجید مجیدی کی فلمیں اگر دیکھیں تو وہ احساسات کے گرد اور خاندانی رشتوں کی مضبوطی کے گرد گھومتی ہیں، کم بجٹ خرچ کرکے کامیاب فلمز بناتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟

سید جمال شاہ: آپ اگر غور کریں تو ایرانی سینما اپنے ایرانی لٹریچر سے بہت متاثر ہے، وہیں سے وہ اپنی طاقت لیتا ہے، ایرانی ادب میں بڑی زبردست باتیں ہیں۔ اسی طرح پاکستان لٹریچر میں بھی بڑی گہرائی ہے، اگر ہم ادب کو بنیاد بنا کر اسی پر فلمیں بنائیں اور اپنی زندگی کے قریب قریب اور حقیقت پر مبنی کہانیاں لکھیں اور ان کو اپنے انداز سے بنائیں، کسی کی تقلید اور نقالی کے بغیر، تو وہ سینما ہماری لئے بہتر اور ہماری چادر کے مطابق ہو گا۔ تو جیسا کہ آپ نے کہا کہ کاریں تباہ کرنا اور عجیب و غریب کاموں کی ضرورت نہیں پڑے گی، اصل چیز یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ سینما کیا ہے، یہ زندگی کے بارے میں ہے، لوگوں کی تعلیم کا ایک ذریعہ ہے، انہیں تفریح فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے، انہیں باخبر رکھنے کا ایک ذریعہ ہے، اگر ہم اس انداز میں لیں گے تو ملک کے لئے بھی اچھا ہوگا، آپ کی تہذیب بھی اس طرح آگے بڑھے، اور پورے معاشرے میں ہمواری ہو گی، ہیجان نہیں ہوگا۔

 

تسنیم نیوز: اپنے کیریئر کی شروعات کے ایک ڈرامہ سیریل پالے شاہ کے بارے میں بتائیں؟

سید جمال شاہ: پالے شاہ ایک ایسے شخص کی کہانی تھی جو اس سرزمین پر استعمار اور انگریز کے خلاف برسرپیکار رہتا ہے، پالے شاہ خوستی کی جدوجہد ہماری تاریخ کا اہم پہلو ہے، اس ڈرامے کا سکرپٹ اور ڈائریکشن، میں نے اور ایک دوست سجاد احمد نے کی تھی، کوئٹہ سے ہم نے یہ پلے کیا تھا، کوشش یہ رہی تھی کہ پالے شاہ خوستی کی کہانی سے قریب رہیں، اس کے لئے کافی ریسرچ کی، بلوچستان گزٹیئر پورا پڑھا، اس مواد کے مطابق، انگریزوں نے پالے شاہ کو ایک ڈاکو اور چور مشہور کیا تھا جبکہ وہ ایک مجاہد تھا، آزادی کا ایک متوالا تھا، کوشش یہ کی تھی کہ تاریخ کے اس صفحے میں کوئی بناوٹ نہ آئے، ہمارے بال، داڑھیاں اصلی تھیں، یہ پلے خدا کا شکر ہے کہ بہت پسند کیا گیا، بلکہ اس زمانے میں افغانستان میں وہ پلے دکھایا گیا، ڈاکٹر نجیب اس زمانے میں زندہ تھے، اس زمانے میں اپنے ٹیلی وژن پر وہ پلے دکھایا، اور مجھے بعد میں پتہ چلا تھا کہ انہوں نے ایک پلان بنایا تھا کہ ڈاکٹر نجیب اور ایک پولش ملکر غازی امان اللہ پر اسی طرح کا سیریل بنائیں، لیکن وہ اس سے پہلے ہی چل بسے۔

تسنیم نیوز: کچھ روز قبل نیشنل بک فاونڈیشن میں گوشہ حافظ سعدی کا قیام عمل میں لایا گیا، اسی طرح تہران میں اقبال شناسی تحقیقی سنٹر بنایا جائے گا، ایسے اقدامات کے ہماری سوسائٹی، ہمارے کلچر اور ہماری ینگ جنریشن پر اثرات کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جمال شاہ: جی یہ سارا لٹریچر ایک طرح سے مشترکہ ورثہ ہے، سعدی ہوئے، اقبال ہوئے، اقبال لاہوری میرے خیال میں ایران میں پاکستان سے زیادہ پڑھے جاتے ہیں، اور سمجھے جاتے ہیں، ہم کوشش کررہے ہیں کہ رومی اور اقبال کا ایک سیمینار آنے والے وقتوں میں منعقد کریں، اور پوری اسلامی دنیا سے ادیب اور سکالرز کو مدعو کیا جائے، ایران اور ترکی اور باقی تمام دنیا سے، اس طرح کی کوششیں جاری رہیں گے تاکہ ہم ایران اور باقی مسلمان ممالک کے ساتھ مل کر کام کرسکیں۔

تسنیم نیوز: کلچر اور ثقافت کی سرحدیں نہیں ہوتیں، بحیثیت آرٹسٹ ایرانی آرٹسٹوں کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

سید جمال شاہ: میں ایرانی آرٹسٹوں کو ہمیشہ خوش آمدید کہوں گا، کہ وہ ہمارے ملک آئیں، وہ بہت زبردست کام کررہے ہیں، جیسے آپ نے سینما کی بات کی، اسی طرح visual آرٹسٹ ہیں، خطاط بہت بہترین ہیں، ایرانی میوزک بہت زبردست ہے، میں چاہوں گا کہ ایرانی موسیقار یہاں آئیں، ایک پورا طائفہ آئے اور یہاں اپنے فن کا مظاہرہ کریں، ہمارے لوگ وہاں جائیں، آرٹسٹوں کا ایکسچینج ہو، وہ یہاں آکر کام کریں، ہمارے آرٹسٹ وہاں جاکر کام کریں۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری