روس: ترک صدر کے شام سے متعلق بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے


روس: ترک صدر کے شام سے متعلق بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے

روس نے ترک صدر اردگان کے بشار اسد حکومت کے خاتمے کے لئے فوجی مداخلت سے متعلق بیان کو غیر متوقع قرار دیا اور کہا ہے کہ ترک صدر کے شام سے متعلق بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، روسی صدارتی محل نے ترک صدر رجبطیب اردگان کے حالیہ بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اردگان کا شام حکومت گرانے سے متعلق بیان غیر متوقع تھا اور اس کا یہ بیان ماضی کے بیانات سے مکمل تضاد رکھتا ہے۔

واضح رہے کہ ترک صدر اردگان نے گزشتہ دنوں بیان دیا تھا کہ ترک افواج کی شام میں مداخلت صرف اور صرف بشار اسد حکومت کے خاتمے کے لئے کی گئی ہے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ "ہم انصاف اور عدالت کے قیام کے لئے شام گئے ہیں۔ ہم نے شام میں اس لئے مداخلت کی ہے کہ بشار اسد حکومت کا خاتمہ ہوجائے۔ وہ شخص جس نے اپنے ہی عوام کو نشانہ بنایا ہے۔ شام میں ہماری مداخلت کی کوئی اور دلیل نہیں ہے۔"

اردگان نے کہا: "یہ کام اس لئے کیا گیا ہے کہ شام کی سرزمین ان کے اصلی مالکوں کو واپس دلوایا جائے اور ترکی شام کی سرزمین کو لالچ کی نگاہ سے ہرگز نہیں دیکھتا۔"

ترک وزیراعظم کے دفتر نے رواں سال 24 اگست کو شام میں فوجی مداخلت کا سرکاری اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ترک افواج کا مقصد سرحدی علاقے جرابلس سے دہشتگرد گرو داعش کو مار بھگانا ہے۔

ترک صدر نے ایسے موقع پر یہ بیان دیا ہے کہ انقرہ نے روس کے ساتھ روابط بڑھانے کے لئے بھی قدم اٹھایا ہے وہ ملک جو بشار اسد حکومت کا پہلے درجے کا حامی ہے اور ہمیشہ کے لئے شامی فوج کی دہشتگردی کے خلاف حمایت کرتا آرہا ہے اور اسی طرح ہمیشہ سے داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد اور امریکی اور یورپی ممالک کی تنقید کا نشانہ بھی بنتا آرہا ہے۔

اردگان کا یہ بیان قطر وزیر خارجہ کے اس بیان کے چند روز بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر نو منتخب امریکی صدر بشار اسد کے مخالف باغی گروہوں کی حمایت چھوڑ بھی دیں، تاہم قطر حکومت انہیں مسلح کرنے اور اسد حکومت کے خلاف لڑانے میں کوئی کسر چھوڑے بغیر ان کی حمایت جاری رکھے گا۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری