برطانوی حکومت کے تضاد بیانات/ وزیر اعظم دفتر نے جانسن کا بیان مسترد کر دیا


برطانوی حکومت کے تضاد بیانات/ وزیر اعظم دفتر نے جانسن کا بیان مسترد کر دیا

برطانوی وزیراعظم کے دفتر نے اپنے ہی وزیر خارجہ کا ایران سعودی عرب پراکسی جنگ سے متعلق بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جانسن کے بیان کا لندن حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، برطانوی وزیراعظم کے دفتر نے اپنے ہی وزیر خارجہ کا بیان مسترد کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے گزشتہ دنوں اپنے اتحادی ملک سعودی عرب پر مشرق وسطیٰ میں پراکسی جنگ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

معروف انگریزی اخبار دی گارڈین نے ایک ویڈیو فوٹیج شائع کی تھی جس میں بورس جانسن ان سیاست دانوں کے متعلق بات کر رہے ہیں جو سیاسی مفاد کے لیے مذہب کا غلط استعمال اور اسے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا تھا کہ چونکہ خطے میں مضبوط قیادت کا فقدان ہے اس لیے سعودی عرب اور ایران اپنے حق میں حمایت کے لیے اس طرح کی ہوا دیتے رہتے ہیں۔

لیکن برطانوی وزارت خارجہ کے دفتر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اس کا اتحادی ہے اور سرحدوں کے تحفظ کے سلسلے میں اس کی جو کوششیں ہیں اس کی برطانیہ حمایت کرتا ہے۔

فوٹیج میں بورس جانسن کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ 'کچھ ایسے سیاست دان ہیں جو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کا غلط استعمال کرتے ہیں اور ایک ہی مذہب کی مختلف شاخوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے: 'یہ خطے میں تمام بڑی سیاسی مشکلات میں سے ایک ہے۔ اور میری مشکل یہ ہے کہ ان ممالک کے خود کے پاس مضبوط قیادت کا فقدان ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں آپ کو ہمہ وقت پراکسی جنگ ملے گی۔

تاہم ٹریسامے کے دفتر سے بیان جارہ ہوا ہے کہ بورس جانسن کا بیان لندن حکومت سے کوئی تعلق نہیں اور یہ ان کا اپنا ذاتی نظریہ ہے۔

جانسن کا بیان ایسے وقت میں جاری ہوا ہے کہ ٹریسامے نے حال ہی میں خلیجی ممالک کا دورہ کیا ہے جبکہ برطانوی وزیر خارجہ کا سعودی عرب دورہ بھی آنے والے اتوار کو متوقع ہے۔

واضح رہے کہ خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب برطانوی اسلحے کے خریداروں میں صف اول میں کھڑا ہے۔

جانسن نے اپنے بیان میں ایسی حالت میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان پراکسی جنگ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ انہوں نے خود اپنی پارلیمنٹ میں سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرنے کی حمایت کی تھی۔

بعض برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے یمن میں سعودی اتحادی فوج کی مداخلت کے پیش نظر ریاض کو اسلحہ بیچنے کی مخالفت کی تھی اور موقف اختیار کیا تھا کہ آل سعود اس اسلحے سے یمن میں بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہا ہے۔

گارڈین کی رپورٹ کی بنیاد پر، سعودی عرب نے یمن جنگ شروع کرنے کے بعد برطانیہ سے 3 بلین پاونڈ کا اسلحہ خریدا ہے۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری