فتح حلب نے شیعہ اور سنی کے درمیان دشمنی کی سامراجی سازش کو ناکام بنادیا


فتح حلب نے شیعہ اور سنی کے درمیان دشمنی کی سامراجی سازش کو ناکام بنادیا

حلب کی اکثریتی آبادی سنی مسلمانوں کی ہے۔ اس شہر پر گذشتہ کئی برسوں سے بیرونی اور اندرونی تکفیریوں کا قبضہ تھا اور یہاں وہ جہاں تک ممکن تھا سنیوں کا قتل عام کرتے رہے اور یہاں کے لوگوں کی عزت و آبرو کو نشانہ بنایا۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: پاکستانی تجزیہ کار فرحت حسین مہدوی نے اپنے مقالے میں کہا ہے کہ امریکہ، یورپ اور عربی اور عبری پراپیگنڈا مشینری نے حلب شہر کی آزادی کے لئے اسلامی تحریک مزاحمت کی جنگ کو شیعہ ـ سنی جنگ کا رنگ دینے کی بھرپور کوشش کی حالانکہ یہاں لڑی جانے والی جنگ اس شہر کی سنی آبادی کی آزادی کی جنگ تھی۔

دوسری طرف سے حلب کے لوگ خوشحال لوگ تھے کیونکہ حلب شام کی معاشی شاہرگ اور ایک عظیم صنعتی شہر تھا جس کی صنعتیں امریکہ، اسرائیل، ترکی، سعودی عرب، قطر اور امارات سے وابستہ تکفیری دہشت گردوں نے اجاڑ دیں اور یہاں کے کارخانوں کی پوری مشینری شام کے تیل کی مانند ترکی منتقل کی گئی۔

نقصان کس کا ہوا؟

شہر حلب شام کا دوسرا بڑا شہر اور یہاں کی آبادی دمشق کے بعد دوسری بڑی آبادی اور پوری طرح سنی آبادی تھی جو یہاں کی صنعتوں کی وجہ سے ایک خوشحال آبادی تھی اور ان کی یہ خوشحالی تکفیریوں نے لوٹ لی، تو نقصان سنیوں کا ہوا اور اب اسلامی مزاحمت تحریک نے یہ شہر سنیوں کو واپس کردیا!
امریکیوں نے ترکی اور عربوں کو گرین سگنل دے کر حلب کو ایک نئے ملک کا صدر مقام بنانے کے لئے دہشت گردوں کے داخلے کی منظوری دی اور تکفیریوں نے وہ سب کرنے سے گریز نہیں کیا جو شام کے حصے بخرے کرنے کے لئے لازم تصور کیا جاتا تھا؛ امریکہ صرف تین مہینوں کے عرصے میں اسد حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا اور یورپ نے بھی پوری طرح ساتھ دیا اور ترکی اور عربوں نے after asad era کے لئے منصوبہ بندیاں بھی مکمل کرلی تھیں مگر 4 سال گذرنے کے بعد بڑے بے آبرو ہوکر حلب کے کوچے سے یہ سب نکلے!

قرون وسطی کے طرز کی عرب حکومتوں نے شام میں جمہوریت کا رونا بھی رویا، یہاں سنی شیعہ جنگ کے لئے بھی اپنی کوششیں جاری رکھیں لیکن اب جو کچھ ہوا وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں اور ہم بھی دیکھ رہے ہیں۔

صف ماتم بچھ گئی ہے ان کی صفوں میں جو شام کو تحریک مزاحمت سے الگ کرنا چاہتے تھے اور اس کے حصے بخرے کرنے کی سوچ رہے تھے۔

وہ شام کے بعد دوسرے اسلامی ممالک کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے لیکن شام میں شکست کھا کر گویا ان کی یہ سازش ناکام ہوئی۔

حلب کی جنگ ایک شہری جنگ تھی اور اگر تحریک مزاحمت اور شامی افواج وہابی دہشت گردوں کی روایت اپناتے اور اگر ان کے لئے عوام کی جان کی کوئی اہمیت نہ ہوتی تو اس شہر کی آزادی تین سال قبل بھی ممکن تھی لیکن تحریک مزاحمت اور شامی افواج کو یہاں کے عوام کی جان عزیز تھی چنانچہ جنگ بڑی احتیاط سے آگے بڑھائی گئی اور کل ہزاروں دہشت گرد اپنے اہل خانہ کے ساتھ بسوں پر سوار ہوکر میکے روانہ ہوئے۔

اللہ کی عنایات خاصہ اور تحریک مزاحمت کی کارکردگی اپنا کام کر گئی اور شہر دشمنان اسلام اور امریکہ، اسرائیل، یورپ، ترکی اور سعودیوں اور اماراتیوں اور قطریوں کے قبضے سے آزاد ہوا۔

حلب میں تکفیریوں کی شکست ایک تزویری شکست تھی جس کی وجہ سے مغربی اور عربی اور عبری ذرائع ابلاغ نے سوگ منایا اور امریکی وزیر خارجہ نے جنگ کے عدم اختتام کا اعلان کرکے درحقیقت اپنی سازشیں جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

فتح سے فائدہ کس کا ہوا؟

شامی افواج اور تحریک مزاحمت کے مجاہدین اللہ کے وعدوں اور آپس کے اتحاد و اتفاق و یکجہتی کے سہارے حلب کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے اور امریکہ، یورپ، اسرائیل، ترکی اور عرب رجعت پسندوں کو شکست ہوئی اور تکفیری جارحیت کی وجہ سے ہجرت پر مجبور ہوکر جانے والے حلب کے سنی باشندے ہنسی خوشی، جش و سرور مناتے ہوئے فوری طور پر تکفیریوں کے ہاتھوں ویراں ہونے والے گھروں کی طرف لوٹنا شروع ہوئے اپنا گھر دوبارہ آباد کرنے کا عزم لے کر؛ اور تحریک مزاحمت ان کا شہر آباد کرنے میں بھی ان کا ساتھ دے گی۔

مرجائیں وہ جن کا نقصان ہوا؛ اس بار مغرب پرست تکفیریوں کا نقصان ہوا وہی جن کو مزید مرجانا چاہئے کیونکہ ان کی ایکسپائری کی تاریخ گذر گئی ہے، مرجائیں وہ جن کو یہاں کے عوام کے جشن کی وجہ سے تکلیف پہنچ رہی ہے وہی جو:

وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَيْكُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُواْ بِغَيْظِكُمْ (آل عمران ـ 119)

ترجمہ: اور وہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اور جب تخلیہ ہوتا ہے تو تمہارے خلاف غیظ و غضب سے اپنی بوٹیاں کاٹتے ہیں۔ کہو کہ مر جاؤ تم لوگ اپنے غم و غصے سے۔

مبارک ہو اسلام اور مسلمانوں کی فتح بھی مبارک ہو اور حضرت امام سید روح اللہ موسوی خمینی (قدس سرہ) کے اعلان کردہ ہفتۂ وحدت مسلمین کے موقع پر یہ عظیم کامیابی بھی مبارک ہو۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری