جماعت اسلامی سے پوچھا جائے کہ لدھیانوی کو ساتھ لیکر کیوں آئے، چوہدری نثار


جماعت اسلامی سے پوچھا جائے کہ لدھیانوی کو ساتھ لیکر کیوں آئے، چوہدری نثار

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ مولانا سمیع الحق کی قیادت میں آنے والے وفد میں مولانا لدھیانوی بھی شامل تھے، وفد فورتھ شیڈول میں شامل افراد کے شناختی کارڈ سے متعلق بات کے لئے آیا تھا، جماعت اسلامی سے پوچھا جائے کہ مولانا لدھیانوی کو ساتھ لے کر کیوں آئے۔۔؟

دفاع پاکستان کونسل کے وفد سے ملاقات کی، جماعت اسلامی سے پوچھا جائے کہ مولانا لدھیانوی کو ساتھ لے کر کیوں آئے۔ چوہدری نثار
خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق،  پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ دفاع پاکستان کونسل کے وفد سے ملاقات کی، ملاقات میں ون پوائنٹ ایجنڈے شناختی کارڈ پر بات کی۔

چوہدری نثار نے کہا کہ مولانا سمیع الحق کی قیادت میں آنے والے وفد میں مولانا لدھیانوی بھی شامل تھے، وفد فورتھ شیڈول میں شامل افراد کے شناختی کارڈ سے متعلق بات کے لئے آیا تھا، جماعت اسلامی سے پوچھا جائے کہ مولانا لدھیانوی کو ساتھ لے کر کیوں آئے۔۔؟

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سانحہ کوئٹہ کی انکوائری رپورٹ کے حوالے سے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ اخبارات کے ذریعے پڑھی، جس میں مرچ مصالحہ بھی موجود تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف سنے بغیر یکطرفہ رپورٹ کس طرح سامنے آگئی۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ رپورٹ دیکھنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے پاس گیا اور کہا کہ اگر میرے بات کرنے سے حکومت کو مشکلات پیش آتی ہیں تو میں استعفٰی دے دیتا ہوں، تاکہ ریکارڈ کو درست کر سکوں۔

انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے کہا کہ یہ تو میرے لئے قابل قبول نہیں، لہٰذا آج میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں، تاکہ آپ کو کہانی کا دوسرا رخ بتا سکوں۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں صرف آفیشل نہیں بلکہ ذاتی الزامات بھی لگائے گئے، مثال کے طور مجھے اس بات سے بہت زیادہ رنج ہوا، جب میں نے اخبارات میں پڑھا کہ وزیر داخلہ نے غلط بیانی کی۔

انہوں نے کہا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس قسم کی چیز سپریم کورٹ سے بلواسطہ طور پر سامنے لائی جائے گی، سپریم کورٹ تو مقام سکون ہے، مقام سایہ ہے، مقام انصاف ہے۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں تو ملزم کو بھی مکمل موقع دیا جاتا ہے اپنی صفائی کا، لیکن ایسا کیسے ہوا کہ مجھ پر الزامات لگ گئے اور میرا موقف بھی نہیں لیا گیا۔

وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کے آغاز میں کہا کہ وہ آج انتہائی جارحانہ موڈ میں آئے ہیں اور کہا کہ صرف ایک ہی موضوع پر بات ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اس رپورٹ کے حوالے سے میرے بات کرنے کے خلاف تھے، لیکن میں یہ معاملہ واضح کرنے اور تصویر کا دوسرا رخ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے سیاست میں 35 سال ہوگئے، کوئی ذاتی مقدمہ تو نہیں بنا، تاہم سیاسی طور پر یا حکومت کے خلاف جو بھی فیصلے آئے، انہیں ہمیشہ خندہ پیشانی سے قبول کیا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ میں فوری طور پر اس کا جواب دینا چاہتا تھا، لیکن دو وجوہات کی بناء پر تاخیر ہوگئی۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اخبارات میں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا، جس میں لکھا تھا کہ میں نے عوام سے جھوٹ بولا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ میں بہت ہی گناہ گار ہوں، لیکن جھوٹ نہیں بولتا، رپورٹ میں صرف پیشہ وارانہ نہیں ذاتی الزامات بھی لگائے گئے۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سول و عسکری ربط و تعاون اور سیاسی اتفاق رائے سب سے زیادہ ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے خود پر اور اپنی وزارت پر لگنے والے الزامات کے جواب نہیں دیئے، لیکن اب مجھے موقع ملا ہے، اب ہر پلیٹ فارم پر جواب دوں گا۔

انہوں نے کہا کہ آج نہیں بلکہ آئندہ چند دنوں میں سپریم کورٹ میں بھی اپنا اور وزیر داخلہ کا موقف ایک ایک کرکے پیش کروں گا۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بھی موقف پیش کروں گا، سنا ہے پارلیمنٹ میں تحریک التواء لائی جا رہی ہے، ایک نہیں جتنی مرضی تحریکیں لے آئیں۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پانچ مرتبہ پیش کرچکا ہوں اور آپ سب گواہ ہیں کہ پھر اس پر آگے سے کوئی جواب نہیں آیا۔

چوہدری نثار نے نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی (نیکٹا) کے حوالے سے کہا کہ نیکٹا جب میرے حصے میں آیا تو وہ اسلام آباد میں کرائے کے ایک گھر میں قائم تھا، جس کا چھ مہینے کا کرایہ بھی نہیں دیا گیا تھا، جو لاکھوں روپے بنتا تھا۔ ادھر جو جوائنٹ سیکرٹری اور ڈپٹی سیکرٹری تھے وہ آپس میں لڑتے تھے، ان کے خلاف پولیس نے مقدمے درج کر رکھے تھے۔

انہوں نے کہا کہ آج نیکٹا کی پوزیشن سب کے سامنے ہے، کئی خفیہ اطلاعات سیکورٹی اداروں سے شیئر کی گئیں اور 20 ہزار سے زائد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ 8 اگست کو کوئٹہ کے سول اسپتال میں ہونے والے خودکش دھماکے میں 70 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے تھے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے، جن میں زیادہ تعداد وکلاء کی تھی۔ بڑی تعداد میں وکلاء بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سول ہسپتال پہنچے تھے کہ اچانک دھماکہ ہوگیا۔ اس واقعے پر تشکیل دیئے جانے والے جوڈیشل کمیشن نے دو روز قبل اپنی رپورٹ جاری کی تھی، جس میں حکومت پر شدید تنقید کی گئی تھی۔

کوئٹہ کمیشن کے پوچھے گئے 5 سوالات پر جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ جنہوں نے نیشنل ایکشن پلان کو پڑھا بھی نہیں، وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس پر عمل نہیں ہوا۔ پنجاب ہاؤس میں ایک خط بھیجا گیا، جس میں کہا گیا کہ انہیں کوئٹہ کمیشن کے حوالے سے پانچ سوالوں کے جواب دینے ہیں۔ پہلے میں سمجھا کہ یہ خط جعلی ہے، کیونکہ میں پنجاب ہاؤس میں نہیں رہتا، تحقیقات پر معلوم ہوا کہ ایک جج کے سیکرٹری نے میرے لئے وہ خط وہاں چھوڑا تھا۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ کمیشن سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے تھا اور پہلا سوال یہ پوچھا گیا کہ آپ اہلسنت والجماعت (سپاہ صحابہ) کے وفد جس کی سربراہی مولانا لدھیانوی کر رہے تھے، سے کیوں ملے؟ میں نے جواب دیا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ میں اہلسنت والجماعت کے وفد سے نہیں ملا۔

چوہدری نثار کے مطابق دوسرا سوال یہ تھا کہ اسلام آباد میں اہلسنت والجماعت کو جلسے کی اجازت کیوں دی گئی؟ جواب دیا کہ اسلام آباد میں جلسوں کی اجازت دینا یا نہ دینا میرے اختیار میں نہیں، یہ ضلعی انتظامیہ کا دائرہ کار ہے اور میرے پوچھنے پر ضلعی انتظامیہ نے بتایا کہ نہ تو اہلسنت والجماعت نے کوئی اجازت مانگی اور نہ ایسی کوئی اجازت دی گئی۔

تیسرا سوال یہ پوچھا گیا کہ بحیثیت وزیر داخلہ آپ نیکٹا ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور یہ ثبوت ملا ہے کہ ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہی کبھی نہیں ہوا، کیوں؟ چوہدری نثار نے بتایا کہ میں نے اس پر بھی کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے، نیکٹا کی ایگزیکٹو کمیٹی کا آخری اجلاس 31 دسمبر 2014ء کو ہوا، بعد ازاں اجلاس کے انعقاد میں تعطل آنے کی وجہ یہ ہے کہ نیکٹا ایکٹ قانون کے تحت ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس نیکٹا کے بورڈ آف گورننس کے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے یا ان امور کی انجام دہی کے لئے ہوتا ہے، جو بورڈ آف گورننس ان کے ذمے کرے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ بورڈ آف گورننس کا اجلاس ہی نہیں ہوا تو ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بھی نہیں بلایا جاسکا۔

چوتھے سوال کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہ پوچھا گیا کہ یہ ثابت ہوا کہ بورڈ آف گورننس کا اجلاس کبھی نہیں ہوا، کیوں؟ وزیر داخلہ نے کہا کہ اس سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ یہ سوال وزیراعظم آفس سے متعلقہ ہے۔

چوہدری نثار کے مطابق پانچویں سوال میں پوچھا گیا کہ وزارت داخلہ میں سیکریٹری داخلہ کے علاوہ اسپیشل سیکریٹری بھی ہیں، اسپیشل سیکریٹری کیوں موجود ہیں؟ وزیر داخلہ نے کہا کہ میں نے جواب دیا کہ اسپیشل سیکریٹری کی تعیناتی قانون کے مطابق ہے، عام طور پر ان وزارتوں میں کی جاتی ہے جہاں کام زیادہ ہو، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل وزارت خارجہ، خزانہ، قانون و انصاف اور دیگر وزارتوں میں بھی اسپیشل سیکریٹری تعینات رہے ہیں اور اس وقت بھی موجود ہیں۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ جب روزانہ 5 سے 6 دھماکے ہوتے تھے، اس وقت کسی سے جواب طلبی نہیں ہوئی، میں نے کوئی پٹرول پمپ، فیکٹری یا آفشور کمپنی نہیں بنائی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان ہوں یا بچہ پارٹی وہ اس معاملے پر بحث کیلئے تیار ہیں، ان کے لئے وزارت نہیں عزت اہم ہے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ سے متعلق ایک بھی سوال نہیں کیا گیا، اپنا جواب سپریم کورٹ میں پیش کروں گا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ سانحہ کوئٹہ پر مجھ سے کونسا سا سوال کیا گیا، جو میں نے غلط بیانی کی؟ سپریم کورٹ مقام انصاف ہے، سپریم کورٹ کے سامنے جو پیش ہوتے ہیں، ان کی بھی عزت ہے، میرے لئے وزارت نہیں اپنی عزت اہم ہے، اپنی عزت کا دفاع کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ملک کے ایک ایک پیسے کا دفاع کیا، اپنی وزارت کو کبھی ذریعہ معاش نہیں بنایا، ڈاکٹر عاصم اور پیپلز پارٹی سے کوئی دشمنی نہیں۔ سول اسپتال دھماکے میں زیادہ تر وکلاء ہلاک ہوئے، جائے وقوع پر موجود صحافی بھی دھماکے کی زد میں آئے اور نجی نیوز چینل آج ٹی وی اور ڈان نیوز کے کیمرہ مین دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کے لئے جسٹس قاضی فائز عیسٰی پر مشتمل ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری