سی پیک میں ایران کی شمولیت لازمی/ پاک ایران روابط سے کابل-اسلام آباد تعلقات بہتر ہونگے


سی پیک میں ایران کی شمولیت لازمی/ پاک ایران روابط سے کابل-اسلام آباد تعلقات بہتر ہونگے

پاکستان کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی تجزیہ کار نے سی پیک میں ایران کی شمولیت کو لازمی قرار دیتے ہوئے پاک ایران گیس پائپ لائن کی جلد از جلد تکمیل پر تاکید کی اور کہا کہ پاک ایران تعلقات سے افغانستان سے تعلقات میں بہتری آئے گی

ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی، آرمی کے تھری سٹار جنرل کے ساتھ ساتھ سیاسی و دفاعی تجزیہ نگار بھی ہیں۔ تسنیم نیوز نے جنرل غلام مصطفی سے سی پیک منصوبہ میں بھارت اور ایران کی شمولیت سمیت پاک ایران تعلقات اور دیگر مختلف علاقائی احوال پر اہم اور مفصل گفتگو کی ہے جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے

تسنیم نیوز: اگرچہ مملکت خداد پاکستان گزشتہ چند سالوں سے وزیر خارجہ سے محروم رہا ہے تو ایسے حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کیسے بہتر کیا جاسکتا ہے؟

غلام مصطفیٰ: وزیر خارجہ ہونا ضروری ہے لیکن اسے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کیا ہے وزیر خارجہ کی اہمیت خارجہ پالیسی کے ہونے پر منحصر ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی ایک کنفیوزن کا شکار ہے۔

خطے سے باہر اور ریجن میں ممالک سے پاکستان کیا چاہتا ہے یہ ایک مختلف چیز ہے۔ ہندوستان اس میں سرفہرست ہے کیونکہ ہندوستان نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ہے جس کی بہت سے وجوہات ہیں اگر میں خود کو ایک انڈین کے طور پر سوچوں تو یہ وجوہات درست ہیں۔

1971 میں گاندھی نے کہا کہ آج ہم نے بنگال میں نظریہ پاکستان کو دفن کر دیا ہے۔ مودی نے بار بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ میں نے پاکستان توڑنے میں مدد کی ہے جبکہ پاکستان کی موجودہ حکومت یہ کہتی ہے کہ ہمارا مسئلہ جنرل مشرف نے خراب کیا ورنہ واجپائی نے یہاں آکر کام آسان کردیا تھا یہ دھوکہ دہی کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔ واجپائی کے واپس جانے کے بعد دہلی ایئرپورٹ پر اترتے ہی عوام نے کشمیر کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تو واجپائی نے جواب میں کہا کہ "میں نے اس کشمیر کی بات کی جو پاکستان کے زیر تسلط ہے"۔

بھارت کے ساتھ تعلقات کو کشمیر سے الگ کرکے دیکھتے ہیں افغانستان کے ساتھ مسئلہ میں بھارت کو علیحدہ کرکے دیکھتے ہیں۔ ایران کے ساتھ تعلقات کو بھی غلط نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ ایسا ہے نہیں۔ جب تک بھارت کے ساتھ تعلقات میں نظر ثانی نہیں کی جاتی ہماری خارجہ پالیسی بہتر نہیں ہوسکتی جس کی حالیہ مثال یہ ہے کہ وزیراعظم نے یو این او میں اپنی تقریر میں وانی کو شہید نہیں کہا، وانی کو شہید کہنا چاہئے تھا کیونکہ اس نے اس لئے قربانی دی کہ وہ مسلمان تھا اور پاکستان سے ملنا چاہتا تھا۔ یہ پوائنٹ صحیح طریقہ سے رجسٹر نہیں کیا گیا۔ بھارت کی پاکستان میں مداخلت جس کا مودی نے اعتراف بھی کیا لیکن ہم بلوچستان، گلگت بلتستان کے بارے بیان سے کترا گئے۔ افغانستان میں جو بھارتی مداخلت اور اثر و رسوخ ہے اس کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا حق نہیں ہے۔ انڈین صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے کر رہا ہے لیکن ہونا نہیں چاہئے۔ ہمارے ہاں سے آوازیں اٹھتی ہیں کہ ہمیں مان لینا چاہئے کیونکہ ہم تاریخ سے نابلد ہیں۔ افغانستان پر اگر کسی کا قبضہ رہا ہے تو وہ پنجابیوں کا قبضہ رہا ہے رنجیت سنگھ نے لاہور میں بیٹھ کر کابل پر حکومت کی ہے۔ کابل میں بیٹھ کر کسی نے پاکستان کے کسی خطہ پر حکومت نہیں کی ہے۔ افغانستان تاریخی لحاظ سے ایک نئی چیز ہے۔ افغانستان نے نہ صرف پاکستان کو تسلیم نہیں کیا بلکہ پاکستان کے خلاف اگر کسی نے جارحیت کی ہے تو وہ افغانستان نے کی ہے۔ 1955 میں افغانستان نے پاکستان کے مقام باجوڑ پر باقاعدہ حملہ کیا پاکستان کے خلاف بھارت کو اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت بھی افغانستان نے ہی دی۔ افغانستان کو کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

تسنیم نیوز: کشمیر جیسے معاملات میں ہمیں عالمی برادری کا تعاون درکار ہے لیکن ہمارے تعلقات پڑوسی ممالک سے موجودہ حالات میں کشیدہ ہیں  عرب ممالک کا جھکاؤ پاکستان کے بجائے بھارت کی طرف ہے، ایران کے ساتھ بھی کشیدگی ہے تو مسئلہ کشمیر کا حل کیسے ممکن ہے؟

غلام مصطفیٰ: جیسا کہ میں نے کہا  اس حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی ہے نہیں، اگر خارجہ پالیسی صحیح ہو تو دنیا کو اپنی حیثیت بتا سکتے ہیں۔ دنیا کا بھارت کی طرف کی جھکاؤ کی وجہ یہ ہے کہ بھارت ایک بہت بڑی منڈی ہے بھارت نے جس طرح سے پاکستان کے خلاف کام کیا اس طرح سے پاکستان نے بھارت کے خلاف نہیں کیا اس لئے کسی اور کو بھارت کے خلاف بولنے کی کیا ضرورت ہے۔ پاکستان نے بھارت کے موجودہ وزیر اعظم کو یہ لائسنس دیا کہ دنیا آپ کو قبول کرے تو دنیا کیوں قبول نہیں کرے گی۔ بھارت کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی انتہائی کمزور ہے۔ ہارٹ آف ایشاء کانفرنس کے دوران سرتاج عزیز کی موجودگی میں مودی اور اشرف غنی نے اپنی تقاریر میں ہماری بے عزتی کی لیکن جواب نہیں دیا گیا۔ اس لئے اگر ہم بھارت کے خلاف نہیں بولیں گے تو دنیا کیوں ہماری اس حوالے سے بات سننے کو تیار ہوگی۔ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کی پالیسی بیانات کی حد تک ہے۔ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین دنیا میں کہیں بات نہیں کر سکتا نہ وہ بات کرنے کے قابل ہے۔ پاکستان میں الگ بات ہے وہ ایک لیڈر ہونگے لیکن دنیا ایک اور نظر سے دیکھتی ہے۔ حال ہی میں پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جن کو کشمیر کا ایشو سرے سے معلوم ہی نہیں تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جہاں کہیں وجود ہی نہیں وہیں کہیں پر دوغلے پن اور کنفیوژن کا شکار ہے جس کی وجہ سے آپ دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ پیش نہیں کرسکتے ہیں  لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کو شامل کئے بغیر کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ہم کشمیریوں کی مدد نہیں کرتے تو یہ مسئلہ اس قدر پیچھے چلا جائے گا کہ شاید پھر دوبارہ اس صورتحال پر لانے کیلئے مزید کوششیں کرنی پڑ جائیں گی۔ ہندوستان نے کئی دہائیوں سے کشمیر میں سات لاکھ فوج رکھی ہوئی ہے جو پاکستان کی پوری فوج سے ایک لاکھ زیادہ ہے۔ اگر کشمیر کی آبادی کا جائزہ لیں تو ایک کشمیری پر دس بھارتی فوجی تعینات کئے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کشمیریوں پر ظلم کرتا ہے،کشمیری قربانیاں دے رہے ہیں لیکن پاکستان کیا کر رہا ہے یہ ایک سوال ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں دوغلاپن سے کشمیر پر برا اثر پڑ رہاہے ۔

تسنیم نیوز: پاک ایران تعلقات کے بارے میں بتائیں؟

غلام مصطفیٰ: 1965کی جنگ ہو یا 1971کی جنگ ہو، ایران نے جب بھی ضرورت پڑی پاکستان کی ہمیشہ مدد کی ہے۔ ایوب خان نے اپنے وقت میں ریجن کاپوریشن بنائی تھی جس میں ایک ٹرین چلائی اور گڈز نیٹ ورک بھی بنایا تھا جو ایران ترکی اور پاکستان پرمشتمل تھا۔ لیکن اس کے بعد پاکستان ایران کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے میں ناکام رہا۔ دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل حل طلب تھے لیکن ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ ایران کے حق میں بھی نہیں ہے اور پاکستان بھی یہ سمجھتا ہے لیکن اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ پاکستان نے جو پہلا اچھا اقدام کیا ہے وہ یمن میں سعودیہ عرب کے ساتھ مل کر مداخلت نہیں کی ہے۔ لیکن ایران نے اسکا صحیح جواب نہیں دیا۔

تسنیم نیوز: چین کی طرف سے سی پیک میں بھارت کو شامل ہونے کی تجویز دی گئی ہے جو پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کے لئے اہم قدم ہے جبکہ ایران بھی اس منصوبے میں شمولیت کی خواہش رکھتا ہے۔ ایران کو اس میں ابھی تک کیوں شامل نہیں کیا گیا جبکہ ایران کے ساتھ ہماری ثقافتی، مذہبی بنیادوں پر تعلقات بھی استوار ہیں لیکن پاکستان کی طرف سے ابھی تک ایسی کوئی آفر سامنے نہیں آئی؟

غلام مصطفیٰ: ایران پاکستان کا مسلمان ہمسایہ ملک ہے ہمیشہ مددکی  ہے او سب سے بڑھ کر یہ اکنامک سنس بھی بنتی ہے سی پیک میں ایران کی شمولیت لازمی ہے اس سے ایران کو بہت فائدہ ہوسکتا ہے ایران نے خواہش بھی ظاہر کی ہے۔ پاکستان کو چاہئے تھا ایران سے شرائط کے ساتھ سی پیک میں شمولیت کے حوالے سے بات کرتا، ایران کا اس میں خرچہ نہیں قرضہ تو پاکستان نے لینا ہے سڑکیں بھی پاکستان میں بن رہی ہیں ایران کو ایک پائپ لائن دی ہوئی جو ایران بنانا چاہتا ہے لیکن ہم بنا نہیں رہے ہیں جب پاکستان ایران تعلقات بہتر ہونگے تو افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری آئے گی ایران پاکستان کے ساتھ مل کر اس پر کام کر سکتا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ چونکہ بھارت کا چائنہ کے ساتھ ٹریڈ میں انٹرسٹ ہے  چائنہ کی کوشش ہوگی کہ وہ اس کو نیوٹرل کرکے رکھے تاکہ بھارت اس کے لئے خطرہ نہ بن جائے۔ اس لئے ان کی لڑائی ہونے کے مواقع کم ہیں چپقلش کے جو بھی چانس ہیں چین وہ بھی ختم کرے گا اور بھارت بھی یہی چاہیگا۔ اگر پاکستان سے راستہ مل جاتا ہے تو ویسٹرن چائنہ کی ترقی کیلئے انڈیا کے پاس بہت کچھ ہے دینے کو، اس لئے چائنہ کے کہنے پر پاکستان انڈیا کو ساتھ شامل کرلے گا۔ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ ہمار ی حکومت اسی طریقہ سے سوچ رہی ہے۔ اسی لئے بھارت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی نہیں آنے دی جارہی اس میں حرج نہیں ہے لیکن پاکستان کے ٹرمز پر ہونا چاہئے یہ موقع ہے بھارت کا سی پیک سے لنک ہونے سے بھارت کی اکانومی میں انقلاب آجائے گا۔ پاکستان کی موجودہ حکومت بھارت کو یہ فائدہ دینا چاہتی ہے لیکن پاکستان کو شرائط رکھنی چاہئے  جیسا کہ پاکستان کا انٹرسٹ یہ ہے کہ پاکستان کا پانی کا اور کشمیر کا مسئلہ حل کیاجائے۔ اگر یہ مسائل اور بھارتی مداخلت بند ہوجاتی ہے تو افغانستان میں اثررسوخ کم کرلیتا ہے تو بھارت کو سی پیک کا حصہ بنانا چاہئے۔

تسنیم نیوز: گزشتہ دنوں وزیر تجارت کا دورہ ایران ملتوی ہونے سے پاک ایران گیس پائپ لائن پھر تاخیر کا شکار ہوگئی ہے ایران اپنے حصے کی پائپ لائن مکمل کر چکا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان اس منصوبے میں دلچسپی نہیں دکھا رہا؟

غلام مصطفیٰ: جو بھی وجوہات ہیں دور کرنی چاہئے کیونکہ پاکستان کا انٹرسٹ ہے گیس اور تیل مل سکتا ہے ایران نے گوادر کے ساتھ آئل ریفائنری لگانے کی بات کی تھی جس کا پاکستان کو فائدہ حاصل ہوگا۔

تسنیم نیوز: تکفیری دہشتگردوں کا نیا اتحاد جس میں جند اللہ اور لشکر جھنگوی العالمی جیسی تنظیمیں شامل ہیں نئے سرے سے افغانستان، ایران اور پاکستان میں کارروائیوں کا ارادہ رکھتے ہیں پاکستان کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے؟

غلام مصطفیٰ: پاکستان یہ برداشت نہیں کرسکتا۔ خطے میں جو دہشت گردی بدامنی لاسکتی ہے پاکستان اس کو برداشت نہیں کرسکتا چاہے وہ ایران کے حوالے سے ہو یا افغانستان کے حوالے سے ہو۔ طالبان سے امریکہ بات چیت کرنا چاہتا ہے ہندوستان نے دوحہ میں ان سے بات کی ہے۔ لیکن پاکستان کو اس معاملہ میں دور رکھا ہے چائنہ پاکستان کی ماسکو میں طالبان کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے جبکہ اس میں ایران شامل نہیں ہے ایران کو شامل کرنا چاہئے۔ پاکستان میںجنداللہ جیسے گروہوںکے جو سپورٹر ہیں ان کو ختم کرنا چاہے۔ یہ دہشت گرد سب ایک ہی ہیں کبھی کچھ تو کبھی کچھ بن جاتے ہیں ان میں سے جنگجو لوگ ڈنڈا اٹھاکر پھرتے رہتے ہیں جہاں سے پیسے زیادہ ملتے ہیں ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ گن فار ہائر ہیں۔ یہ نظریاتی قسم کے دہشت گرد نہیں ہیں۔ اسلام ان کے لئے ایک نعرہ ہے جس کو یہ استعمال کرتے ہیں پھر یہ دہشت گرد پاک ایران تعلقات بگاڑنے کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔

تسنیم نیوز: پاکستان کا اہم ترین مسئلہ دہشت گردی ہے اور یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ یہ مارشل لاء کے ادوار سے مضبوط ہوئی ہے آپ کیا سمجھتے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

غلام مصطفیٰ: 1970ء کی دہائی میں روس اور بھارت کی افغانستان میں مداخلت بڑھ چکی تھی تو افغانستان کو پاکستان کے لئے خطرہ بھانپتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان سے تعلقات بہتر کئے اور طالبان کے اسٹوڈنٹ لیڈرز کو پاکستان میں لائے ان کو تعلیم دلوائی اور تربیت دی۔ اس سلسلہ کو ضیاء الحق نے جاری رکھا ایسے میں سویت یونین کے ساتھ ضیاء اکیلا پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا کوئی مدد کو نہ آیا اس کے دو سال بعد جب لڑائی میں دوسرے ممالک شامل ہوئے تو پاکستان نے لشکری اکٹھے کئے۔ یہ منصوبہ غلط نہیں تھا جو بھی اسے غلط کہتا ہے وہ فوج سے دشمنی کی بات کرتا ہے۔ ہوا یہ کہ ہم اسے صحیح طرح سے ہینڈل نہیں کر پائے پالیسی غلط نہیں تھی۔ پاکستان ان کو کنٹرول نہیں کرسکا 35 لاکھ لوگوں کو کنٹرول کرنا مشکل تھا بہر حال یہ ہماری کمزوری تھی اس وقت یہ طے کرنا چاہئے تھا کہ ان طالبان کا سویت یونین کے جانے کے بعد کیا کرنا چاہئے۔ مذہبی انتہاپسندی ہو یا دوسری انتہا پسندی ختم نہیں ہوئی جس کو ختم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ ہم دہشت گردوں کے پیچھے پڑے ہیں دہشت گردی کا پیچھا نہیں کیا جہاں پر سیاسی مفادات آڑے آئے ہیں ہم پیچھے ہٹ گئے ہیں۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری