امریکہ کی دہشتگردی سے متعلق افغان دعوؤں کی حمایت


امریکہ کی دہشتگردی سے متعلق افغان دعوؤں کی حمایت

امریکہ نے اپنے دیرینہ دوست پاکستان سے قطع نظر کرتے ہوئے فاٹا میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں سے متعلق کابل حکومت کے دعوے کی حمایت کی ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے پاکستان کے سرحدی علاقے فاٹا میں دہشت گردوں سے نمٹنے میں پاکستان کو پیش آنے والی مشکلات کا اعتراف کیا تاہم دوسری جانب دعویٰ کیا کہ اسلام آباد کو دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے میں مشکل کا سامنا ہے۔

نیوز بریفنگ کے دوران امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے کابل کے دعوے کی حمایت بھی کی کہ فاٹا میں موجود محفوظ پناہ گاہیں ہی دہشت گردوں کو افغانستان میں حملے کرنے کا موقع فراہم کررہی ہیں۔

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ پاکستانی حکومت اس بات کو سمجھے کہ افغانستان، پاکستان اور بھارت آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور افغانستان کی سیکورٹی پاکستان اور بھارت کی بھی سیکورٹی ہے، جبکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تینوں کو ساتھ کام کرنا ہوگا۔

امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایسے موقع پر جاری ہوا ہے کہ افغانستان کے صوبہ قندھار کے پولیس چیف جنرل رزاق نے گزشتہ روز الزام عائد کیا کہ حالیہ قندھار حملے کے تانے بانے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی اور حقانی نیٹ ورک سے ملتے جلتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی بہترین مہارتوں کے تحت کی گئی تھی۔

جنرل رازق نے مزید کہا: اس حملے کا مقصد صوبہ قندھار کے حکام کو نشانہ بنانا تھا۔

دوسری جانب پاکستان نے کابل حکومت کے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔

یاد رہے کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں 24 گھنٹوں کے دوران ہونے والے 4 دھماکوں میں 43 افراد جاں بحق اور 80 سے زائد زخمی ہو گئے۔

مارک ٹونر کا ایک صحافی کے اس سوال پر کہ کیا واشنگٹن کابل کے الزام کی حمایت کرتا ہے، کہنا تھا کہ اس سوال کا مختصر جواب 'ہاں' ہے۔

مارک ٹونر نے کہا کہ ہم واضح انداز میں عوامی سطح پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ان گروہوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے سے اجتناب کرے، جو  افغانستان میں حملے کرسکتے ہیں یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے تھوڑی بہتری آئی ہے اور ان محفوظ پناہ گاہوں سے نمٹنے کے لیے چند اقدامات کیے گئے ہیں تاہم اب بھی مسئلہ برقرار ہے۔

مارک ٹونر نے یہ بھی کہا کہ اس لیے امریکا پاکستان سے اپنا مطالبہ دہراتا ہے کہ تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کرے۔

صحافی کے سوال پر کہ پاکستان کی جانب سے ان محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی میں ہچکچاہٹ کے بعد کیا اس بات کی ضرورت ہے کہ امریکا پاکستان کی جانب اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے؟ مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں سوائے اس کے یہ ایک اہم معاملہ ہے، یہ ایسا معاملہ ہے جسے میں باقاعدگی سے پاکستانی قیادت کے سامنے اٹھاتا رہا ہوں، اس بات پر بحث کی جاسکتی ہے کہ یہ محفوظ پناہ گاہیں دور دراز علاقوں میں قائم ہیں اور پاکستانی فوج کے پاس ان سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہے۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری