کس کو مبارکباد دیں مسلمانوں کی غفلت اور دشمن کی کامیابی پر؟


کس کو مبارکباد دیں مسلمانوں کی غفلت اور دشمن کی کامیابی پر؟

آج فلسطین میں تیسری انتفاضہ جاری ہے لیکن مسلمانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، وہ تو کہتے ہیں کہ ہم فلاں مذہب کے قائل ہیں اور سعودی عرب بھی اسی مذہب کا قائل ہے اور سعودی عرب یہودیوں کے ساتھ ہے اور سعودی کہہ رہے ہیں کہ ہمارے دشمن شیعہ ہیں اور وہ یہودیوں سے بدتر ہیں، لہذا بس ہم تو شیعوں کو لڑیں گے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کو ارسال کردہ مقالے میں پاکستانی تجزیہ نگار فرحت حسین مہدوی نے عالم اسلام میں تفرقہ ڈالنے کی دشمن سازشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ مسلمانوں کیلئے آج حق و باطل اور ظالم و مظلوم کی پہچان نہایت ضروری ہوگیا ہے۔ ان کے مقالے کا متن من و عن پیش کیا جاتا ہے۔   

یعنی یہ کہ یہودیوں کے مورچے پر دوستی کا پرچم لہرایا گیا اور مسلمان بھی مان گئے؟

اور ان ہی نے مسلم محاذ کے عین وسط میں شیعہ مورچے پر دشمن کا پرچم لہرایا تو مسلمان مان گئے؟

ایک بھائی نے پوسٹ لگائی تھی تو ایک حافظ اور سید سنی نے اس کے ذیل میں لکھا تھا:

یار جب تم ایران کی حمایت کرتے ہو تو کوئی بات نہیں لیکن جب ہم سعودیوں کی حمایت کرتے ہیں تو تمہارے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں!

تو کیا واقعی ایسا ہی ہے؟

ہم نے جواب میں لکھا کہ آج ایران مظلوموں کا حامی ہے ہم بھی اس کی حمایت کرتے ہیں، سعودی عرب ظالم ہے اور ظالموں کی گود میں بیٹھا ہوا ہے تو ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں، اس کا فرقے یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم اسی اثناء میں سنی فلسطین کے بھی شدید حامی ہیں کیونکہ وہ مظلوم ہے؛ ہمارے پاس امیرالمؤمنین علیہ السلام کا دیا ہوا ایک معیار ہے اور وہ معیار یہ ہے کہ ظالم سے دشمنی کرو اور مظلوم کی مدد کرو، تو ہم اس معیار کے تابع ہیں اور اگر کل خدا نخواستہ ایران ظلم کی حمایت کرے گا ہم بڑی آسانی سے اس کی مخالفت کریں گے تو تم ظلم اور قتل و غارت اور خونریزی دیکھ کر اس کی مخالفت نہیں کرتے؟

بات یہ ہے کہ یہ فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں ہے، اس وقت شیعہ میدان میں ہے اور تمام عرب حکمران، تمام دہشت گرد تنظیمیں اور تمام مغربی طاقتیں شیعوں کے خلاف ہیں تو اب دیکھنا ہوگا کہ آپ کس کے حامی اور کس کے مخالف ہیں۔

مجھ سے کسی وقت کسی نے کہا کہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے لئے اتنے کروڑ ڈالر کا انعام مقرر ہوا ہے تو اگر وہ تمہارے ہاتھ آئے تو کیا کرو گے؟

میں نے کہا کہ جناب اگر اسامہ نے ہمارے معیاروں اور قواعد و قوانین کے مطابق کوئی جرم کیا ہے تو میں خود اس کو سزا دوں گا لیکن اس کو امریکہ کے حوالے ہرگز نہیں کروں گا، کیونکہ اسامہ کی مخالفت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں امریکہ کے ساتھ تعاون کروں گا اور اس کے دیئے ہوئے انعام سے اپنی زندگی وابستہ کروں گا۔

انسان کو غصہ بھی آئے تو اس کو سچ بولنا چاہئے اور سچ کے راستے پر چلنا چاہئے۔

فلسطین میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اس کی طرف عدم توجہ آپ کو کس کی صف میں لاکھڑا کرتی ہے؟ وہی ظلم اگر یمن میں ہورہا ہے اور آپ خاموش رہیں تو آپ کس کی صف میں ہونگے۔

فلسطین میں یہودیوں کے مظالم پر خاموش مسلمانوں کے بارے میں لبنان کے ایک سنی عالم دین اور صیدا کی مسجد القدس کے امام کی بات واقعی دل کو لگی؛ شیخ ماہر حمود کہتے ہیں:

"اگر آپ چاہتے ہیں کہ عرب اسرائیل سے لڑ پڑیں اور اس کا مقابلہ کریں اور اس کے خلاف جہاد کریں تو کہہ دو کہ اسرائیلی شیعہ ہوگئے ہیں

تو کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے؟

کیا یہ اسرائیل کے لئے خوشخبری نہیں ہے؟

کیا دشمن اور دوست کی جگہ بدلنے میں یہودیوں کا منصوبہ کامیاب نہیں ہوا ہے؟

انھوں نے گذشتہ سال ایک انٹرویو میں عربوں کے لئے ایران کے خطرے کی تشہیر کو ہرزہ سرائی کا عنوان دیا اور کہا کہ اسرائیل عرب دنیا پر تسلط جمانے کے لئے اس تشہیری مہم سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے؛ جبکہ ہم نے یہودیوں کے کہنے پر فلسطینی مسلمانوں کو تنہا اور مسجد الاقصی کو بےیار و مددگار چھوڑ رکھا ہے۔

اسرائیل کے منصوبے، شیخ ماہر حمود کے زبانی

٭ وہ پرانے یہودی سپنے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مسجد الاقصی پر قبضہ کرکے قدس شہر کو یہودیانے کی کوشش کررہے ہیں؛

٭ وہ مسجد الاقصی کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں، اور وہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر تیار کررہے ہیں کہ امت مسلمہ تسلیم کرے کہ مسجد الاقصی کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ [کیا اس وقت یہی صورت حال نہیں ہے فرقہ واریت کے فتنے میں الجھنے والوں کے نزدیک؟]

٭ اسرائیلی شام کے شہر درعا میں عرب ملکوں کے ساتھ ایک ہی آپریشن روم سے دہشت گردوں کی کاروائیوں کی نگرانی کررہے ہیں۔

٭ وہ تجارتی سرگرمیوں کے ضمن میں تمام عرب ممالک میں موجود ہیں اور فعال کردار ادا کررہے ہیں؛

٭ وہ فلسطین کو مسلمانوں سے خالی کرانا چاہتے ہیں اور انہیں اس حوالے سے بھی مغرب کی حمایت حاصل ہے؛

مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت کے بارے میں شیخ ماہر حمود کا کہنا تھا:

٭٭ فلسطینی عوام امت کی طرف سے امت کا دفاع کررہے ہیں؛

٭٭ عربوں کی بیداری ایک خواب کے سوا کچھ نہیں؛

٭٭ محاذ مزاحمت اور ایران، شام، حماس اور حزب اللہ نے ہی اسرائیلی جارحیتوں کو روک رکھا ہے؛

٭٭ عرب اور اسلامی ممالک کے عوام حکومتوں جیسے نہیں ہیں اور فلسطینیوں کی حمایت کررہے ہیں لیکن سوشل میڈیا کی حدتک؛

٭٭ مسلمان کہلوانے والے دہشت گرد مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں لیکن یہودیوں کو کچھ نہیں کہتے؛

٭٭ مسلمان علما اپنا فریضہ کب ادا کریں گے؟

٭٭ جو لوگ شام کی جنگ کو جہاد سمجھ کر اس میں شامل ہوئے، وہ گمراہ ہوئے اور انھوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا؛

٭٭ یمن پر سعودی چڑھائی بھی ایسی ہی ہے اور وہ بھی جہاد نہیں ہے بلکہ اس کے حوالے سے بھی لوگوں کو گمراہ کیا گیا؛

٭٭ فتنہ اتنا ہی کافی ہے، تکفیری امت اسلامی کے خوارج ہیں اور ان کی اصل حقیقت کو لوگوں کے سامنے عریاں کرنا چاہئے اور وہ لوگ جو ان کی حقیقت کو آشکار نہیں کرتے اور خاموش رہتے ہیں، وہ بھی مجرم ہیں، علماء اور نوجوانوں کو جاگنا چاہئے اور لوگوں کو تکفیر کے نقصانات سے آگاہ کرنا چاہئے؛

٭٭ عربوں اور سنیوں کے لئے ایران کے خطرے کی تشہیری مہم ہرزہ سرائی ہے، اور مسجدوں کے منابر نیز سیٹلائٹ چینلز پر یہ اس خطرے کی تشہیر کرنے والے اسلام کے دعویدار قابل مذمت ہیں؛

٭٭ ایران اسرائیل سے زیادہ بڑا دشمن نہیں ہے بلکہ وہ تو اسرائیل کے مقابلے میں سنیوں کی حمایت میں قربانیاں دے رہا ہے؛

٭٭ صرف سادہ لوح اور نادان لوگ اس قسم کے دعوؤں پر یقین کرتے ہیں؛

٭٭ مزاحمت تحریک کے دشمن تکفیری مولوی دنیا بھر کے 90 فیصد منابر و مساجد پر قابض ہیں جہاں سے ایران اور شیعہ کی دشمنی اور مزاحمتی تحریک کی مخالفت پر مبنی تبلیغ و تشہیر ہورہی ہے؛

٭٭ 2006 میں حزب اللہ اور اسلامی تحریک مزاحمت نے اسرائیل کو شکست دی تو بعض علماء نے کہا کہ اس پر خوشی نہیں منانا چاہئے کیونکہ اس سے دین میں فتنہ اٹھ سکتا ہے، یہ ایک گمراہی ہے اور یہ گمراہیاں بدستور موجود ہیں جن کا خاتمہ ضروری ہے؛

٭٭ علماء کی اکثریت مغرب اور صہیونیت سے وابستہ حکمرانوں کی تھال چاٹ رہے ہیں اور ان کے تنخواہ دار ہیں؛

٭٭ علماء کو سرکاری عہدوں سے الگ ہوکر بین الاقوامی علماء اتحاد تشکیل دینا چاہئے؛

٭٭ علماء فتنوں سے محفوظ نہیں ہیں اور ان سے بہت سے تو فتنوں میں الجھ چکے ہیں، وہی علماء جو اپنی تنخواہ کے تحفظ کے لئے جھوٹ بولتے ہیں اور ناحق گواہیاں دیتے ہیں۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری