سعودی عرب میں پاکستانی حاجی 7 ماہ سے غائب/ پاکستانی سینیٹ سراپا سوال


سعودی عرب میں پاکستانی حاجی 7 ماہ سے غائب/ پاکستانی سینیٹ سراپا سوال

حج کے دوران لاپتہ ہونے والے عبدالغفور خان کے حوالے سے 7 سال سے کوئی پیش رفت نہ ہونے پر پاکستانی سینیٹ نے کئی سوال اٹھا دیئے کہ اگر لاپتہ افراد کا پتہ نہیں چلتا تو یہ سوال پیدا ہو گا کہ ان کو سعودی عرب کی جانب سے یمن بھیج دیا گیا ہو۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق 18 اگست 2016 کو عبدالغفور خان حج ادا کرنے کی غرض سے مدینہ پہنچے تاہم اگلے ہی روز لاپتہ ہوگئے تھے۔

وزارت خارجہ میں قائم مقام ڈی جی مشرق وسطی عباس حیدر قریشی نے کہا کہ حج کے دوران لاپتہ ہونے والے حاجی کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

جبکہ سعودی عرب میں تمام پاکستانی حجاج کا ڈیٹا وزارت مذہبی امور کے پاس ہوتا ہے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سوال اٹھایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک حاجی عبدالغفور خان وہاں پہنچے اور دوسرے دن غائب ہو گئے؟

اگر وہ وفات پا گئے تو کوئی تو ریکارڈ ہو گا؟

ریکارڈ سے ثابت ہے کہ ان کی وہاں سعودی پولیس سے جھگڑا ہوا تھا۔ متاثرہ خاندان کے پاس ان کی جھگڑے سے متعلق ای میل موجود ہے۔

ڈی جی حج نے کہا کہ سعودی پولیس نے جھگڑے کے بعد اس کو چھوڑنے کی بات کی۔ وزارت خارجہ کا ایک تحریری خط جانا چاہئے اور ڈی جی حج سے پوچھا جائے کہ اس نے کیا اقدامات کیے۔

اگر ان کا پتہ نہیں چلتا تو یہ سوال پیدا ہو گا کہ لاپتہ افراد کو سعودی عرب کی جانب سے یمن بھیج دیا گیا ہو۔

یہ معاملہ سینیٹ میں بھی اٹھایا جائے گا، معاملہ پر تحریری معلومات سعودی حکومت سے حاصل کی جائیں۔

سینیٹر مولانا عطا الرحمان نے کہاکہ حاجی عبدالغفور کی گمشدگی پر مختلف بیانات موجود ہیں۔ سات ماہ سے ان کا کچھ علم نہیں۔

سینیٹر سید ظفر حسین شاہ نے مطالبہ کیا ہے کہ جس بھی معاملے سعودی پولیس فورس نے ان کو گرفتار کیا ہے اس کے اہلکاروں سے معلومات حاصل کی جائیں۔

انہوں نے کوئی ریکارڈ کو مرتب کیا ہو گا۔ لاپتہ حاجی کو واپس چھوڑنے کی کوئی گواہی یا ثبوت تو ہو گا۔

وزارت خارجہ نے دو لائنیں لکھ کر جان چھڑا لی ہے۔

سینیٹر سسی پلیجو نے کہاکہ اس اجلاس میں جو سوال پوچھے گئے فقط ان کے جواب مل جائیں تو اس لاپتہ پاکستانی کا پتہ چل سکتا ہے۔

حج یا عمرہ پر لاپتہ ہونے والوں کے لئے ون ونڈو آپریشن ہونا چاہیے۔

سات مہینے بہت بڑا عرصہ ہے لہٰذا اس کیس کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے۔

چیئرپرسن بیگم نزہت صادق نے کہا ہے کہ ہمیں اس کیس کے دائرہ کار کو مزید پھیلانا چاہیے۔

سعودی حکومت سے اس معاملے پر تحریری جواب لینا چاہیے۔


سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ معاملے کو بہرحال وزارت خارجہ نے ہی سعودی حکومت کے ساتھ اٹھانا ہے۔ سعودی حکومت سے تحریری جواب لیا جائے۔

مولانا عطا الرحمان نے نقطہ اٹھایا کہ اگر سات ماہ گزرنے کے بعد بھی وزارت مذہبی امور نے ہی اس معاملے کو سعودی حکومت سے اٹھانا ہے تو سعودی عرب میں سفارت خانے اور وزارت خارجہ کا کیا کام ہے؟ سات ماہ سے ایک شخص کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری