شام کے معاملے میں اسرائیل کی اچھل کود


شام کے معاملے میں اسرائیل کی اچھل کود

شام میں دہشت گردوں کو چاروں سمت شکست سے دوچار دیکھ کر اب مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن نے جنگی، سفارتی اور غرض ہر سطح پر اچھل کود کرنا شروع کردی ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کو نشانہ بنانے کے بہانے اسرائیل شام میں کھلے عام فضائی کارروائیوں کی دھمکیاں دے رہاہے اور اس نے حال ہی میں وسطی شہر پلمائرہ میں ایک فوجی اڈے پر بمباری بھی کی تاہم شامی فوج کی بروقت جوابی کارروائی کو دیکھتے ہوئے اس کے چار میں سے تین جہاز واپس بھاگ گئے جبکہ ایک گر کر تباہ ہوا۔

مارچ 2011 سے شروع ہوئی شام میں جنگ کے بعد سے اب تک یہ پہلا موقعہ ہے کہ صہیونی حکومت کو چین و سکون نہیں اور وہ اس بات کیلئے سر توڑ کوششیں کررہی ہے کہ کسی طرح سے روس اور شام کی حمایت کرنے والے دیگر ممالک کو ان کے موقف سے ہٹایاجائے۔ اسی مقصد کیلئے اسرائیلی صدر بنیامین نیتن یاہو نے رواں مہینے پہلے روس اور پھر اب چین کادورہ کیا ہے۔ اس بات کی اطلاعات ہیں کہ صہیونی صدر شام کی حمایتی ان دونوں بڑی طاقتوں کو یہ منوانے کیلئے کوشاں ہیں کہ وہ جنگی اور سفارتی سطح پر جنگ زدہ ملک کی مدد سے دستبردار ہوجائیں۔

 یہ بات قابل ذکر ہے کہ شام کے میدان جنگ میں دنیا کے 80 ممالک سے جمع ہوئے دہشت گردوں کو حالیہ مہینوں میں پے درپے شکستوں سے دوچار ہوناپڑاہے۔ حلب ہاتھ سے نکل جانے کے بعد سب سے بڑا صوبہ حمس اور دیگر کئی اہم علاقوں سے بھی ان کی عمل داری ختم ہوچکی ہے جبکہ تاریخی شہر پلمائرہ میںپھر سے شامی فوج نے قبضہ کرکے داعش کے درندوں کو وہاں سے بھاگ جانے پر مجبور کردیاہے۔ ملک میں جنگ بندی کافائدہ اٹھاکر اگرچہ دہشت گردوں نے دمشق کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن شامی فوج کی جوابی کارروائی سے انہیں نہ صرف قبضہ میں آئے علاقوں سے محروم ہوناپڑا بلکہ انہیں اور بھی پیچھے دھکیل دیاگیا۔

فی الوقت پورے ملک میں دہشت گردوں کی زمین سکڑ رہی ہے اور ان کا قافیہ حیات تنگ ہوتاجارہاہے۔ اس تمام تر پیشرفت کو دیکھتے ہوئے امریکہ، مغرب، ترکی اور بعض عرب ممالک تو پریشان ہی ہیں لیکن سب سے زیادہ بوکھلاہٹ اسرائیل کو ہورہی ہے جس نے عملی طور پر سرگرم ہوکر یہ ثبوت دیاہے کہ وہ کسی بھی طرح سے دہشت گردوں کی شکست کے حق میں نہیں۔

اگرچہ شام کے حوالے سے اسرائیل نے بظاہر زیادہ تر خاموشی ہی اختیار کئے رکھی لیکن اندرونی سطح پر وہ دہشت گردوں کا زبردست حامی رہاہے اور اس نے یہ انکشاف بھی کیاہے کہ ا س کے القاعدہ اور دیگر دہشت گردوں کے ساتھ روابط ہیں۔ اگر یہ روابط نہیں ہوتے اور دشمنی ہوتی تو پھراسرائیل کے ساتھ لگنے والی سرحد پراس جگہ امن نہیں ہوتا جہاں دہشت گردوں نے قبضہ کررکھاہے۔

رپورٹوں کے مطابق اسرائیل جہاں بلاتفریق تمام دہشت گرد ٹولوں کا علاج کرواتارہاہے وہیں وہ ان درندوں کو اپنی طرف سے ہتھیار بھی فراہم کرتارہاہے۔ اسرائیلی ساختہ ہتھیار شام اور عراق میں کئی مرتبہ ان دہشت گردوںسے برآمد بھی ہوئے ہیں۔

چونکہ وائٹ ہاﺅس میں ٹرمپ کے برسر اقتدار آجانے کے بعد امریکہ کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں زبردست گرمجوشی دیکھی گئی ہے اس لئے اس بات کو بھی خارج از امکان نہیں قرار دیاجاسکتا کہ شام میں حالیہ اسرائیلی کارروائی امریکی اشاروں یا امریکی رضا مندی کے بغیر ہوئی ہو۔

دراصل اسرائیل عربوں کا ازلی دشمن ہے اور وہ اپنی غاصب ریاست کو تسلیم کرانے کیلئے عرب میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا قیام چاہتاہے اور اسی لئے اس نے شام کی تقسیم کی خاطر داعش جیسے سفا ک دہشت گردوں سے بھی تعاون رکھا ہوا ہے۔

اسرائیل چاہتاہے کہ شام ٹکڑوں میں بٹ جائے تاکہ اسے مزاحمتی قوتوں سے مقابلہ کرنے میں مشکلات کاسامنا نہ ہو۔ وہ اس وقت حزب اللہ اور حماس سے خوفزدہ ہے اور اسی بوکھلاہٹ میں دھمکیوں پہ دھمکیاں دے رہاہے۔ شاید صہیونی حکومت اس وہم و گمان میں ہے کہ حزب اللہ اس وقت شام کی جنگ میں الجھی ہوئی ہے اور اس کا فائدہ اٹھاکر وہ اس مزاحمتی تنظیم کو اشتعال دلاکر جنگ چھیڑے جس سے نہ صرف شام کی جنگ پر اثر پڑے گا بلکہ حزب اللہ کو ایک ساتھ شام میں دہشت گردوں اور اسرائیل کے ساتھ لڑائی لڑناپڑے گی۔ وہ اپنے گرد مزاحمتی قوتوں کی کامیابی کو دیکھ کر اس موقعہ پر دہشت گردوں کے تعاون سے ایک نیا محاذ کھولنے کے حق میں ہے اور ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ اس نے حماس اور حزب اللہ کے حملوں کا نشانہ بننے والے علاقوں سے شہریوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ بنالیاہے۔

تاہم تجزیہ کاروں کا یہ مانناہے کہ حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل کی اب کوئی بھی ممکنہ جنگ ماضی سے زیادہ تباہ کن ہوگی اور اسرائیل کی ساری سرزمین حزب اللہ کے نشانے پررہے گی۔

ان کاکہناہے کہ اسرائیل یہ سمجھتاہے کہ حزب اللہ شام کی جنگ میں کود کر کمزور ہوئی ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حزب اللہ کو اس جنگ سے مزید تجربہ حاصل ہوا ہے اور جدید ہتھیار بھی اس کے ہاتھ میں آچکے ہیں۔

صہیونی حکومت کی شام پر للچائی نظروں کو دیکھتے ہوئے حزب اللہ کے جنرل سیکریٹری سید حسن نصر اللہ بار بار یہ کہہ چکے ہیں حزب اللہ کے محافظ شام کی جنگ کے ساتھ ساتھ اپنے وطن کی سرحدوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں اور اسرائیل کی طرف سے کسی بھی طرح کی پہل کا سخت جواب دیاجائے گا۔

تاہم اسرائیلی حکومت حزب اللہ اور شامی حکومت کے مزید طاقتور ہونے سے پہلے ہی اس کاتوڑ نکالناچاہتی ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ اس عمل میں اس کے حمایتی صرف امریکہ اور مغرب ہی نہیں بلکہ بعض مسلم ریاستیں بھی ہیں۔

اگرچہ قرآن کے سورہ مائدہ میں واضح طور پریہود و نصاریٰ سے دوستی کرنے سے ممانعت کی گئی ہے لیکن کچھ نام نہاد اسلامی ممالک اسرائیل کے ساتھ روابط کو بڑھارہے ہیں اور شام، یمن، عراق جنگوں کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر مسائل پر بھی ان دونوں فریقوں میں کوئی اختلاف رائے نہیں رہ گیا۔

اسلام کا لبادہ اوڑھ کر یہ ممالک دنیا بھرمیں امریکی اور صہیونی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں اور جو پالیسی اسرائیل کی ذہنی تخلیق ہوتی ہے، اس پر بدقسمتی سے امریکی کی ہدایت پر عمل انہی ملکوں کی طرف سے ہوتاہے۔

مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات میں ایک بات جو کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ بعض عر ب ریاستیں اور اسرائیل اس وقت ایک ہی صفحہ پر ہیں اور ان کے مقاصد بھی ایک جیسے ہی ہیں، باوجود اس کے کہ اسرائیل مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے اور ایک غاصب ملک بھی جس نے مسلمانوں کے قبلہ اول پر بھی قبضہ کرلیاہے۔ بدقسمتی سے ان ممالک کیلئے ایران، حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی قوتیں خطرہ ہیں لیکن اسرائیل کوئی خطر ہ نہیں۔

 اگرمستقبل قریب میں اسرائیل مزاحمتی قوتوں کے خلاف ایک نیاز محاذکھول دیتاہے تو شام میں لڑنے والے دہشت گر اور ان کے حامی ممالک خاص طور پر عرب ریاستیں پوری طرح سے بے نقاب ہوجائیں گی اور دنیا پر یہ آشکار ہوجائے گاکہ شام کی جنگ میں حق پر کون ہے اور باطل کاساتھ کون دے رہاہے۔

نوٹ: زیر نظر مضمون مصنف نے اپنے نقطہ نظر سے لکھا ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے، تو قلم اٹھائیں اور اپنے ہی الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: tasnimnewsurdu@gmail.com آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری