توہین رسالت کا الزام، یونیورسٹی طالبعلم سینکڑوں دیگر طلباء کے تشدد سے ہلاک


توہین رسالت کا الزام، یونیورسٹی طالبعلم سینکڑوں دیگر طلباء کے تشدد سے ہلاک

صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں دیگر طلبہ کے تشدد سے ایک 23 سالہ طالب علم مشعل خان ہلاک جبکہ ایک اور طالب علم عبداللہ زخمی ہوگیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ڈی آئی جی مردان عالم شنواری کے مطابق ہلاک ہونے والے طالب علم پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک پر ایک پیج بنا رکھا تھا، جہاں وہ توہین آمیز پوسٹس شیئر کیا کرتا تھا۔


انہوں نے بتایا کہ اسی الزام کے تحت مشتعل طلبہ کے ایک گروپ نے مذکورہ طالب علم پر تشدد کیا، اس دوران فائرنگ بھی کی گئی، تشدد کے نتیجے میں طالب علم ہلاک ہوگیا۔
طالب علم کی لاش کو پولیس نے تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے منتقل کردیا۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مردان ڈاکٹر میاں سعید کے مطابق اس واقعے کے بعد سے 45 افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
واقعے سے قبل مذکورہ دونوں طالب علموں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں تھا اور نہ ہی پولیس ان دونوں کے خلاف 'توہین' کے الزامات کی تحقیقات کررہی تھی۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ طلبہ یونیورسٹی کی طلبہ تنظیموں کے درمیان گردش کرنے والی افواہوں کو سن کر مشتعل ہوئے۔
مشعل خان نے کچھ عرصہ پہلے اپنے ٹویٹر اور فیس بک پر اعلان کیا تھا کہ کسی نے ان کے نام سے جعلی پیج بنائے ہیں اور دوستوں سے ھوشیار رہنے کیلئے کہا گیا تھا۔ 


اطلاعات کے مطابق مشعل خان پشتون سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے رکن تھے اور کچھ عرصہ سے جماعت اسلامی کے اسٹوڈنٹ ونگ اور پشتون سٹوڈنٹس کے درمیان آپس میں جھگڑے ہو چکے ہیں.
 یہ جھگڑے لاہور یونیورسٹی اور گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوئے جس میں کئی طالب علم زخمی ہوئے تھے۔
خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مشعل خان کو ٹارگٹ کرنے کیلئے بلاسفیمی کارڈ استعمال کیا گیا ہے۔
ہلاک ہونے والا طالب علم شعبہ ابلاغ عامہ میں چھٹے سیمسٹر کا طالب علم تھا۔
دوسری جانب اسسٹنٹ رجسٹرار کے مطابق واقعے کے بعد یونیورسٹی سے متصل ہاسٹلز کو خالی کرالیا گیا جبکہ عبدالولی خان یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا۔

موقع پر موجود ایک عینی شاہد نے بتایا کہ مشعال اور عبداللہ جو کہ ابلاغ عامہ کے طالب علم تھے، ان دونوں پر فیس بک پر احمدی فرقے کا پرچار کرنے کا الزام عائد کیا جارہا تھا۔
عینی شاہد کے مطابق مشتعل طلبہ نے ہاسٹل کے کمرے میں عبداللہ کو گھیرے میں لیا اور اسے زبردستی قرآنی آیات پڑھائیں اور اس کے بعد اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔
اطلاع ملتے ہی پولیس جائے وقوع پر پہنچی اور عبداللہ کو اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا جس کے بعد مشتعل ہجوم نے مشعال کی تلاش شروع کردی جو کہ اس وقت ہاسٹل میں ہی موجود تھا۔
عینی شاہد کے مطابق ہجوم نے مشعال کو تشدد کا نشانہ بنایا اور گولی بھی ماری جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگیا۔
اس واقعے کی سامنے آنے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشعال زمین پر بے حس پڑا ہوا ہے اس کے ارد گرد لوگ کھڑے ہیں جبکہ اس کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی نظر آرہے ہیں جبکہ لوگ اسے لاتیں بھی مار رہے ہیں۔
ویڈیو کے آخر میں ایک نامعلوم شخص اس کے کپڑے بھی اتار دیتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے مشعال کے ایک ٹیچر نے بتایا کہ 'وہ کافی پرجوش اور ذہین طالب علم تھا، ہمیشہ ملک کے سیاسی نظام کی شکایت کرتا تھا تاہم میں نے کبھی اسے مذہب کے حوالے سے کوئی متنازع بات کرتے نہیں سنا'۔
پولیس صورتحال کو قابو میں نہ کرسکی
عبدالولی خان یونیورسٹی کا شعبہ ابلاغ عامہ ہاسٹل سے تقریباً آدھا کلو میٹر دور ہے جبکہ ہاسٹل کے وارڈن محمد علی کا یہ کہنا ہے کہ اس نے تین سے چار ہزار طالبعلموں کو آتا دیکھ کر دروازے بند کردیے تھے لیکن ہجوم نے دروازہ توڑ دیا اور اندر آگئے۔
محمد علی نے مزید بتایا کہ 'انہوں نے مشعال کو ڈھونڈ لیا اور اس پر فائرنگ کی پھر اسے مارنا شروع کردیا'۔
طالبعلموں کا کہنا ہے کہ پولیس کو واقعے کی اطلاع دے دی گئی تھی اور اس وقت پولیس کیمپس میں موجود بھی تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پولیس نے طالب علم کو کیوں نہیں بچایا تو طالب عملوں نے بتایا کہ ہجوم اتنا بڑا تھا کہ پولیس کے لیے ان پر قابو پانا مشکل تھا۔

 

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری