عزیر بلوچ اور پاکستان میں ایران مخالف پروپیگنڈا


عزیر بلوچ اور پاکستان میں ایران مخالف پروپیگنڈا

اسلامیہ جمہوریہ پاکستان جب 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تو ایران دنیا کا پہلا ملک تھا جنہوں نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ اور جب 1965 میں پاک۔بھارت جنگ میں پاکستان کی سالمیت خطرے سے دوچار ہوئی تو ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کی نہ صرف بھرپور مدد کی بلکہ پاکستان کے جہازوں کو ایران کے ائیرپورٹ استعمال کرنے کی کھلی اجازت دی گئی۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: "تسنیم نیوز کی ٹیم، قارئین کی جانب سے عزیر بلوچ کے متعلق بے پناہ پیغامات اور مضامین ارسال کرنے پر بے حد شکریہ ادا کرتی ہے، اگرچہ قارئین کی خواہش ہے کہ ان کے مطالب لازمی طور پر نشر ہوں تاہم ادارے کا منشور اور پالیسی ہر قسم کے مطالب کے نشر و اشاعت کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ ادارہ، دشمن کی اس قسم کی سازشوں سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور اس گھناؤنے کھیل کا حصہ نہیں بنے گا۔ ادارہ اس قسم کی سازشوں کے روک تھام کیلئے اپنی کاوشوں کو جاری رکھنے کا بھرپور ارادہ رکھتا ہے۔ بنابراین، قارئین کی خدمت میں ان ہی کے ارسال کردہ مطالب میں سے منتخب مطالب شائع کئے جائیں گے جو سچ پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ پاک ایران تعلقات میں رخنہ ڈالنے کا سبب نہ ہوں۔"

سلمان اختر کے مقالے کا متن من و عن پیش خدمت ہے:

اسلامیہ جمہوریہ پاکستان جب 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تو ایران دنیا کا پہلا ملک تھا جنہوں نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ اور جب 1965 میں پاک۔ بھارت جنگ میں پاکستان کی سالمیت خطرے سے دوچار ہوئی تو ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کی نہ صرف بھرپور مدد کی بلکہ پاکستان کے جہازوں کو ایران کے ائیرپورٹ استعمال کرنے کی کھلی اجازت دی گئی۔

یہی وجہ تھی کہ ایران ۔ عراق جنگ میں پاکستان نے ایران کی بھرپور مدد کی اور جب صدر پاکستان جناب ضیاالحق سے ایک امریکی صحافی نے اس بارے میں پوچھا تو ضیاالحق نے واضح اور دو ٹوک انداز میں جواب دیا کہ "ایران ہمارا برادر اسلامی اور پڑوسی ملک ہے اور مسلمان اور پڑوسی ہونے کے ناطے یہ پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ ایران کی مدد کریں"۔

اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کوئی نئی بات نہیں، پاکستان میں سامراجی اور تکفیری لابی ہمیشہ اسلام، پاکستان اور ایران کے خلاف سرگرم عمل دکھائی دیتی ہے۔  

سامراجی اور تکفیری ایجنڈا ایک ہے، دین مبین، اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی ناکام کوشش کرے، واحد ایٹمی قوت پاکستان کو فرقہ واریت کے دلدل میں پھنسا کر نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش کرے، ایران اور اسلامی انقلاب کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کرے۔

پاکستان پر سامراجی اور سعودی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے،  سامراجی اور تکفیری ایجنٹ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو نام نہاد اسلامی فوج کا سربراہ بنانے میں ناکام رہے ہیں اور پاگل پن میں بھونڈے الزامات لگا کر اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئے ہیں، ان بے سر وپا الزامات سے کسی کی خدمت نہیں ہورہی بلکہ اربوں امریکی ڈالر اور تکفیری ریال حلال کئے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں داعش، القاعدہ، طالبان، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ جیسے سینکڑوں دہشتگرد تنظیمیں اور اہل سپاہ صحابہ جیسے کالعدم تنظیمیں سرگرم عمل ہیں جو نہ صرف سامراجی اور تکفیری پروپیگنڈا کو ہوا دے رہے ہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں دہشتگرد بھرتی کرکے دوسرے ممالک برآمد بھی کررہے ہیں، ان پری پیڈ دہشتگردوں نے نجیب اللہ کو چوک میں لٹکا کر پتھر مار مار کر ہلاک کیا اور افغانستان کو تباہ و برباد کرکے لیبیا پہنچا دیئے گیئے، لیبیا میں معمر قدافی کو سڑکوں پر گھسیٹ کر مار ڈالا، لیبیا کو تباہ و برباد کرنے کے بعد شام پہنچائے گئے تاکہ بشارالاسد کو سبق سکھائیں۔ تکفیری اور سامراجی ایجنٹ عرب جمہوریہ شام کو تباہ و برباد کرنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن اب خود تباہی و بربادی کے راستے پر گامزن ہوگئے ہیں۔ عرب جمہوریہ یمن اور شام سامراجی اور تکفیری غنڈوں کا قبرستان بن گیا ہے۔

پاکستان کی سرزمین پر جنداللہ جیسی ایران دشمن تنظیمیں پنپ رہی ہیں جو ایران میں دہشتگردی میں براہ راست ملوث رہے ہیں۔ جبکہ لشکر جھنگوی کے اکرم لاہوری نے کٹہرے میں کھڑے ہوکر صادق گنجی کے قتل کا اعتراف کیا۔

یاد رہے 19 دسمبر 1990ء میں ایران کے قونصلر جنرل صادق گنجی کو مال روڈ پر قتل کر دیا گیا تھا۔ لیکن اکرم لاہوری کو ابھی تک سزا نہیں دی گئی جو سو دیگر لوگوں کے قتل کا بھی اعتراف کرچکا ہے، جن میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے بڑے سیاستدان، ڈاکٹرز، پروفیسرز اور دیگر پروفیشنلز شامل ہیں اور یہ شیعہ نسل روکنے کی بجائے روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔

حال ہی میں عزیر بلوچ کو ایران کے لئے جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل کرنے کی خبر آئی ہے جو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں۔

عزیر جان بلوچ ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو ماما کا بیٹا ہے۔ محمد ارشد عرف ارشد پپو گینگ نے 2003ء میں عزیر بلوچ کے باپ کو قتل کیا تو باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے جرائم کی دنیا میں قدم رکھا۔ ارشد پپو جو عزیر کا کزن  بھی تھا، عبدالرحمٰن عرف رحمٰن ڈکیت کا دشمن تھا۔ عبدالرحمٰن کی موت کے بعد عزیر کو گینگ کا سربراہ منتخب کر لیا گیا۔ کراچی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا، سیاسی و مذہبی لاشیں گرتی رہیں، جوئے کے اڈے چلتے رہے۔ پھر سیاسی اختلافات پیدا ہوگئے اور لیاری آپریشن کا فیصلہ ہوا تو عزیر بلوچ دوبئی منتقل کئے گئے۔ کچھ عرصہ روپوشی کے بعد عزیر بلوچ کو دوبئی سے گرفتار کیا گیا اور پھر 2016ء کے ابتداء میں رینجرز اہلکاروں نے کراچی میں گرفتاری ظاہر کرکے معجزہ دکھایا اور پولیس کی تحویل میں دے دیا۔

لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے دوران تفتیش  بے نظیر بھٹو قتل کیس کے اہم ترین گواہ خالد شہنشاہ اور لیاری میں اپنے مخالف گروپ کے سربراہ ارشد پپو سمیت 400 سے زائد افراد کے قتل کا اعتراف کیا ہے۔ عزیر بلوچ نے کئی اہم رازوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ لیاری کے علاقے گھاس منڈی میں چلنے والے جوئے کے اڈے سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصہ پولیس افسران اور حکومتی شخصیات کو بھی جاتا تھا جب کہ لیاری گینگ وار کے کارندے وارداتوں کے لئے پولیس کی گاڑیاں بھی استعمال کرتے تھے۔

اس کے علاوہ عزیر بلوچ نے لیاری میں کالعدم تنظیموں کے کارندوں کو پیسوں کے عوض پناہ دینے کا بھی اعتراف کیا۔ عزیر بلوچ کے دہشتگرد تنظیموں سے روابط کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، موصوف کھبی لال مسجد کے بدنام زمانہ مولانا عبدالعزیز کے ساتھ نظر آئے ہیں اور کھبی کالعدم سپاہ صحابہ کے جلسوں میں نظر آئے ہیں جہاں نعرہ تکبیر، اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں عزیر بلوچ کی دستار بندی کی گئی۔

جب عزیر بلوچ تبلیغی جماعت کے مولانا طارق  جمیل کے تبلیغی مجالس میں شرکت کرتے تھے تو پاکستانی میڈیا کے آنکھ کا تارا تھے۔

اب ایسے وقت میں جب پاکستان پر امریکی دباؤ بذریعہ سعودی عرب بڑھ گیا ہے تو عزیر بلوچ کو ایران کے کھاتے میں ڈال کر بلیک میل کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ایران راحیل شریف کی نام نہاد اسلامی سربراہی کے لیئے راہ ہموار ہو سکے، جبکہ سب کو پتہ ہے کہ سعودی عرب کے دہشتگرد شام، یمن اور عراق میں ختم ہو رہے ہیں اور پاکستان سے تازہ دم دستے شامل کرنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں جبکہ لاکھوں طالبان سامراجی اور تکفیری ایجنڈے کی تکمیل کے لئے تیار بیٹھے ہیں جو یہ کارنامہ افغانستان میں کرچکے ہیں، لیبیا میں دہرا چکے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانہ نے پاکستانی میڈیا میں عزیر بلوچ کے جاسوسی سے متعلق الزامات پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔

پریس ریلیز کے مطابق "حالیه دنوں میں میڈیا میں آنےوالی بے بنیاد افواہوں جن میں کچھ شرپسند عناصر کا تعلق ایرانی اداروں سے جوڑا گیا ہے، کی پرزور تردید کرتا ہے اور  یه سمجھتا ہے که اس طرح کی بے بنیاد باتوں  کی اشاعت کا مقصد رائے عامه کی گمراہی اور اس عمل کو دونوں ملتوں کی دوستی و بهائی چارے کی روح کے منافی سمجهتا ہے۔ اس طرح کی جھوٹی باتوں کا شائع ہونا، دونوں دوست برادر ممالک ایران اور پاکستان کے درمیان جاری تعلقات میں روز افزوں اور ہمہ پہلو وسعت کے سلسلے سے مطابقت نہیں رکھتا ہے"۔

نوٹ: زیر نظر مضمون مصنف نے اپنے نقطہ نظر سے لکھا ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے، تو قلم اٹھائیں اور اپنے ہی الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: tasnimnewsurdu@gmail.com آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری