مصر کی یمن میں 40 ہزار فوجی بھیجنے کی تردید


مصر کی یمن میں 40 ہزار فوجی بھیجنے کی تردید

مصری ذرائع نے یمن جنگ میں 40 ہزار مصری فوجی بھیجے جانے پر مبنی سعودی اتحاد کے ترجمان کے جھوٹے دعوے کو مسترد کردیا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق سعودی عرب کی سربراہی میں یمن کے خلاف بنائے گئے اتحاد کے ترجمان احمد عسیری نے چند روز قبل سعودی چینل العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئےدعویٰ کیا تھا کہ مصری صدر نے سعودی عرب اور اتحاد کو یمن میں اپنی فوجیں بھیجنے کی پیشکش دی تھی۔

عسیری کے مطابق عبد الفتاح السیسی نے سعودی عرب کو پیشکش دی تھی کہ مصر یمن میں اپنی فوجیں بھیجنے کو تیار ہے۔

عسیری کا کہنا تھا: "تاہم ہم اس وقت 30-40 ہزار فوجیوں کے بارے میں بات کر ریے تھے۔"

گمان کیا جا رہا ہے کہ عسیری کا اشارہ 2015 کے دوران مذاکرات کی طرف ہو جب اس اتحاد کو تشکیل دیا گیا تھا۔

مصری ذرائع ابلاغ نے عسیری کے دعوے کو شدت سے رد کرتے ہوئے ایک ذمہ دار مصری عہدہ دار کے حوالے سے کہا ہے کہ ہم نے یمن میں فوج بھیجنے کا منصوبہ رد کر دیا ہے۔

مصری ذرائع کا کہنا ہے کہ عسیری کی یمن میں مصری فوجوں کی تعیناتی کے حوالے سے باتیں انجام کو نہیں پہنچی ہیں۔ 

مصری ذرائع کے مطابق بیرون ملک فوجوں کو بھیجنا فوج کی اعلیٰ کونسل کے موافقت کے بغیر نا ممکن ہے جو موافقت ہوئی بھی تھی وہ فضائیہ اور بحریہ کے حوالے سے ہوئی تھی نہ کہ بری فوج کے حوالے سے۔

ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ہمیں تعجب ہے کہ یہ باتیں صدر السیسی اور شاہ سلمان کی ملاقات کے بعد نیز السیسی کے متوقع سعودی سفر کے وقت سامنے لائی جا رہی ہیں۔

مصری ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ "میرے خیال سے عسیری اپنی بات کو درست طریقے سے بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ دو ملکوں کے درمیان پائے جانے والے مسئلوں کے حل و فصل کے متعلق گفتگو میں  انہوں نے یہ اظہار خیال کیا ہے۔ ان کے خیالات جزیرہ تیران و صنافر نیز شام اور خطے میں سیاسی اسلام کے اثرات جیسی بحث کے ذیل میں سامنے آئے ہیں۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری