آل سعود کا اپنے انتہا پسندانہ چہرے کے داغ دھونے کا ایک منصوبہ۔۔۔


آل سعود کا اپنے انتہا پسندانہ چہرے کے داغ دھونے کا ایک منصوبہ۔۔۔

ایک بار پھر ایک دل دہلا دینے والی خبر پاکستانی میڈیا میں صف اول کے ایشو کے طور پر گردش کر رہی ہے اور ساتھ ہی اپنے دامن میں بہت سے مطالبِ پنہاں سموے مختلف زاویہ ہاے نظر اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ شاید یہ پاکستان میں آل سعود کی اپنے انتہا پسندی کے ٹائٹل سے چھٹکارہ پانے کا ایک پراجیکٹ ہے۔

تسنیم نیوز ایجنسی کو موصول شدہ مقالے میں پاکستانی کالم نگار عبدالرحمٰن خان نے کہا ہے کہ ایک اور ایشو پاکستانی میڈیا میں ایک اہم شکل اختیار کر گیا ہے جس کی بازگشت آج بھی جاری ہے اور اس بار آل سعود کا انتہا پسند میڈیا اور ٹریبون اس کے ہراول دستہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

داستان کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ مشعل خان جو کہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کا طالبعلم تھا، پر سوشل میڈیا پر شانِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف کچھ باتیں لکھنے کا الزام لگا کر اسے توہینِ رسالت کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔

وہ الفاظ جو کہ کوئی نہیں جانتا کہاں ہیں، کیا ہیں اور کیا واقعی اس طالبعلم نے ہی اس کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے تھے یا نہیں۔۔۔ مگر یہ الزام اس بات کا سبب بنے کہ مذکورہ یونیورسٹی کے طالبعلموں نے (یا کچھ وہ لوگ جو طالبعلموں کی سی شباہت رکھتے تھے) اس پر حملہ کیا اور انتہائی بہیمانہ انداز میں تشدد کر کے اس کو قتل کردیا۔ یہاں تک کہ نہ اس طالبعلم کو کسی عدالتی طریقہ کار سے گزارا گیا اور نہ ہی اس کو اس الزام پر اپنی صفائی کا موقع دیا گیا بلکہ ایک انتہا پسند گروہ کے حملے میں وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

وہ صورتحال جس نے بہت سے شکوک و شبہات اور سوالات کو جنم دیا یہ ہے کہ اس دلخراش واقعے کے فورا بعد ہی پاکستان کے افراط گر میڈیا چینلز نے اس واقعے کو بہت زیادہ کوریج دیتے ہوئے دسیوں رپورٹس، تصاویر اور خبروں کا انبار لگا دیا۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہی میڈیا چینلز پاکستان میں وقوع پذیر ہونے والے دہشت گردی کے سینکڑوں دیگر واقعات بالخصوص جن میں سینکڑوں مظلوم و بیگناہ مسلمانوں کی جانیں گئیں ان پر فقط ایک سادہ سی خبر پر ہی اکتفا کرتے ہیں لیکن آخر کیوں اس ماجرا کو اس حد تک کوریج دی گئی؟؟

دلچسپ ترین نکتہ یہ ہے کہ انتہا پسند علماء جو کہ اہل تشیع اور اھل تسنن پر کفر کا الزام لگانے کا ایک طویل سابقہ رکھتے ہیں اور جو کہ دہشت گرد گروہوں کا فکری اثاثہ گردانے جاتے ہیں، نے بھی اس واقعے پر اپنی زبانِ اعتراض وا کرتے ہوئے مشعل خان کے قتل کی شدید مذمت کی اور مفتی نعیم نے تو مقتول مشعل خان کو شہیدِ راہِ تعصب اور انتہا پسندی قرار دیا۔ 

حالانکہ ابتدأ مفتی نعیم اس واقعے اور اس کے محرکات پر اپنی رائے زنی میں شک و تردید کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے یہاں تک کہ میڈیا کا دباؤ اس حد تک بڑھ گیا کہ پاکستان کی سینیٹ کو توہین رسالت کے قانون کو بہتر اور نرم بنانے کی تجویز تصویب کرنی پڑی۔

ہمارا شک و شبہ اس وقت یقین میں بدل جاتا ہے جب ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ نائب امام جماعت مسجد الحرام کے پاکستان کے سفر کے دوران انہوں نے انتہا پسند تنظیموں اور ان سے فکری وابستگی رکھنے والے میڈیا گروپس کی بھرپور پذیرائی کے ساتھ ہی یہ اعلان  بھی کیا کہ علماء کو چاہئے کہ لوگوں کو اس بات کی آگاہی دیں کہ رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کیا مصادیق اور مثالیں رکھتی ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے کس طرح کی روش اور شیوہ ہونا چاہئے؟

یہ اقدام ہمیں اس حقیقت کی جانب رسائی دیتے ہیں کہ آل سعود پاکستان میں انتہا پسندی کے اپنے ہی متعارف کردہ چہرے میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں ورنہ ماضی گزشتہ سے لیکر آج تک پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردانہ کارروائیاں ہوئیں، ان کے ذمہ دار تنظیم یا گروہ کی وابستگی آل سعود ہی سے رہی ہے۔

اور یہ کہ صالح بن محمد، نائب امام جماعت مکہ کے پاکستان دورے اور عوام کے اندر انقلاب اسلامی ایران کی مقبولیت اور محبوبیت دیکھنے کے بعد آل سعود نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ خود کو ایک داعیِ عدل اور مخالفِ انتہا پسندی کے طور پر پیش کریں تاکہ پاکستان کو اور زیادہ اپنا طرفدار کیا جاسکے۔

صالح بن محمد دورانِ گفتگو مفتی اعظمِ وھابیت و امام جماعت مسجد الحرام کے فتاویٰ کی مخالفت کو بھی اپنی زبان پر لے آئے اور باوجود اس کے کہ مفتی اعظم وھابیت اور امام جماعت مسجد الحرام کا یہ تاکیدی موقف ہے کہ ہماری ایران کے ساتھ جنگ ایک مذہبی جنگ ہے، صالح بن محمد نے پاکستانی عوام کے اجتماع میں یہ اعلان کیا کہ ہماری ایران کے ساتھ مذہبی عنوان سے کوئی مشکل نہیں، ایران کے ساتھ ہمارے فقط سیاسی اختلافات ہیں۔

عین ممکن ہے کہ انتہا پسند سعودی عرب اور اس سے وابستہ تنظیموں کی سیاسی روش میں تبدیلی جنرل راحیل شریف کی سعودی اتحادی فوج کی کمان سنبھالنے کیلئے رضامندی حاصل کرنے کیلئے یا مسلم دنیا میں آل سعود کی اپنے منفور چہرے میں تھوڑی تبدیلی لانے کی ایک کوشش ہو۔ ہر صورت میں یہ بات واضح ہے کہ یونیورسٹی طالبعلم کو ایک غیر ثابت شدہ کام پر موردِ الزام ٹہرا کر اس جرم کی پاداش میں قتل کردینا اور اس کے بعد انتہا پسندی کے خلاف مبارزہ کے گیت گنگنانا ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔

بہرکیف، یہ تمام اقدامات کہ جن کا مقصد سوائے انتہا پسند علما و گروہوں کی فیس سیونگ حکمت عملی کے اور کچھ بھی نہیں، ان کا کسی بھی مثبت اہداف تک رسائی پر منتج ہونے کی امید رکھنا عبث ہوگا۔

نوٹ: زیر نظر مضمون مصنف نے اپنے نقطہ نظر سے لکھا ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے، تو قلم اٹھائیں اور اپنے ہی الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: tasnimnewsurdu@gmail.com آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری