امریکی وزیر دفاع کے غیراعلانیہ کابل دورے کے اہداف پر ایک نظر


امریکی وزیر دفاع کے غیراعلانیہ کابل دورے کے اہداف پر ایک نظر

اگرچہ جیمز میتھیس کے کابل دورے کی تفصیلات تاحال معلوم نہیں ہو پائی ہیں تاہم کہا جا سکتا ہے کہ اشرف غنی کی اعلیٰ حکام کی برطرفی پر مبنی پالیسی کی وجہ سے سیاسی تناؤ میں اضافہ اور روس کی شمال مشرقی افغانستان میں سرگرمیوں پر خدشات اس دورے کے اسباب ہوسکتے ہیں۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق امریکی وزیر دفاع جیمز میتھیس افغان حکام سے ملاقاتوں کی غرض سے اپنے غیراعلانیہ دورے پر گزشتہ شام کابل پہنچ گئے۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کے آنے کے بعد امریکی وزیر دفاع کا یہ پہلا افغان دورہ ہے۔
بنابراین، امریکی وزیر دفاع کے غیراعلانیہ دورے کے دلائل کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے؛
امریکی وزیر دفاع کے دورے کی سب سے پہلی دلیل کو افغانستان کی اندرونی سیاسی مشکلات سے جڑا جا سکتا ہے۔

گزشتہ دنوں کے دوران اور افغان صدر کی جانب سے اعلی حکام کی برطرفی پر مبنی پالیسی کے ساتھ ساتھ اہم واقعات رونما ہوئے جن میں اشرف غنی کے اصلاحاتی امور میں خصوصی نمائندے "احمد ضیا مسعود" کی برطرفی قابل ذکر ہے۔
اس غیرمتوقع دورے کی دوسری دلیل علاقائی اور بین الاقوامی مسائل سے مربوط واقعات ہوسکتے ہیں، کیونکہ شام اور عراق میں داعش کی شکست اور افغانستان میں روسی مداخلت ٹرمپ انتظامیہ کے خدشات میں بے پناہ اضافے کا سبب بنے ہیں۔
دوسری جانب، شمالی اور شمال مشرقی افغانستان میں روس کا اثر و رسوخ، افغان طالبان کی سرگرمیوں میں اضافہ اور واشنگٹن کی داعش کو افغانستان میں بولڈ کرنے کی ناکام کوششیں بھی جنرل میتھیس کے غیرمتوقع دورے کے اسباب ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ نے خطے کے ممالک کو کنٹرول کرنے اور وسطی ایشیاء میں اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے افغانستان میں اپنی موجودگی - جو واشنگٹن کا سب سے پہلا ہدف ہے- کو بھی تاحال فراموش نہیں کیا ہے۔ 
حالیہ برسوں کے دوران واشنگٹن کی ایران، روس اور چین کو کنٹرول کرنے کی کوششیں ابھی تک جاری ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ بھی افغانستان میں عسکری موجودگی کی کوشش میں ہے۔
اگرچہ امریکی وزیر دفاع نے گزشتہ ماہ بیان دیا تھا کہ افغان جنگ کی انٹیلی جنس اور فوجی کارروائیوں کا جائزہ لینے کیلئے کابل دورے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ اپنے دورے کے بعد افغانستان میں اپنی فوجیوں کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کرے تاہم کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان کی اندرونی سیاسی صورتحال اور علاقائی تحولات کا بھی ان کو کابل کھینچ لانے میں اہم کردار تھا۔
انہوں نے گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات دورے کے دوران پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ کابل میں اشرف غنی کیساتھ ملاقات کے بعد افغان جنگ کے حوالے سے مستقبل کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
بنابراین، یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ کی جانب سے مدر بم کا استعمال اور اس کے فورا بعد افغان طالبان کا صوبہ بلخ میں موجود فوجی کیمپ پر حملہ اور اس کے بعد افغان آرمی چیف اور وزیر دفاع کا مستعفی ہونا بھی امریکی وزیر دفاع کے کابل دورے کے اسباب میں شمار ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ جیمز میتھیس واشنگٹن کے مخفی اہداف کے حصول کیلئے افغان حکام کیساتھ ملاقاتوں میں دہشتگردی سے نمٹنے کے نام نہاد دعوؤں کے تحت جدید فیصلے کرے گا۔
یاد دلایا جاتا ہے کہ افغانستان میں سابق امریکی سفیر زلمی خلیلزاد نے گزشتہ ہفتے امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر کے دورے کے بعد کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ آئندہ تین ہفتوں کے دوران افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی کی وضاحت کرے گی۔
امریکی وزیر دفاع کے کابل دورے کے حوالے سے مذکورہ اسباب میں سے کونسی اہم ترین دلیل ہے جو مبہم ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ میتھیس کے افغان حکام سے ملاقاتوں کا مقصد واشنگٹن کی افغانستان جنگ کے حوالے سے نئی پالیسیوں کا اجرا کرنا ہے۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جنرل نیکلسن کے جائزے کے مطابق، میتھیس کے کابل دورے کا مقصد افغانستان میں امریکی فوجیوں کا اضافہ اور ٹرمپ انتظامیہ کا اس ملک کیلئے نئی حکمت عملی کو محقق بنانا ہے۔

اہم ترین مشرق وسطی خبریں
اہم ترین خبریں