حسین علیہ السلام مجھ سے ہے اور میں حسین علیہ السلام سے (الحدیث)


حسین علیہ السلام مجھ سے ہے اور میں حسین علیہ السلام سے (الحدیث)

سید الشہداء حضرت امام حسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام 3 شعبان 3 ہجری کو مدینہ منورہ میں دنیا میں تشریف لائے۔

تسنیم نیوز ایجنسی: حضرت امام حسین بن علی ابن ابی طالب علیہ السلام، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے نواسے، آئمہ اہلبیت علیہ السلام کی تیسری کڑی اور پنجتن پاک کے پانچویں گوہر ہیں۔

آپ کو سید الشہداء کہا جاتا ہے آپ کے والد گرامی شیرخدا مولائے کائینات امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور والدہ ماجدہ سیدۃ النسا العالمین، شہزادی کونین دختر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔

جب امام حسین علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے آپ کو ایک سفید چادر میں لپیٹ کر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گود میں دیا گیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے ایک کان میں اذان اور دوسرے میں اقامت کہی اور سات دن گزرجانے کے بعد عقیقہ کروایا، اس نومولود کا نام حسین (علیہ السلام) منتخب کیا اور ماں کو حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کے سر کے بال اتارے جائیں اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ دیں۔ جناب بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس حکم کی تعمیل کی۔

آپ کی کنیت ابا عبد اللہ ہے اور مشہور القاب، الرشید، الوفی، الطیب، السید، الزکی، المبارک، التابع لمرضاۃ اللہ، الدلیل علی ذات اللہ اور والبسیط ذکر ہوئے ہیں لیکن سب سے بلند لقب وہی ہے کہ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ اور آپ کے بھائی امام حسن علیہ السلام کو دیا ہے کہ آپ دونوں بزرگوار " سیدا شباب اھل الجنۃ" ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو سبط کے نام سے بھی پکارا ہے۔

حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے۔

سینہ پر بٹھاتے تھے، کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو۔

تاہم  چھوٹے نواسے (امام حسین علیہ السلام) کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھ خاص امتیاز رکھتے تھے۔

چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ  نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین علیہ السلام پشت مبارک پر آگئے تو سجدہ میں طول دے دیا اور جب بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علیٰحدہ ہوگیا تب سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ہوئے حسین علیہ السلام مسجد کے دروازے سے داخل ہونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا خطبہ قطع کردیا اور منبر چھوڑ کر بچے کو زمین سے اٹھایا، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ "دیکھو یہ حسین (علیہ السلام) ہے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو۔"

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ "حسین (علیہ السلام) مجھ سے ہے اور میں حسین (علیہ السلام) سے ہوں" ۔

امام حسین علیہ السلام باغ امامت کے تیسرے پھول اور عصمت و طہارت کا کامل مجسمہ تھے-

آپ کی عبادت، آپ کے زہد، آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے-

آپ نے پچیس حج پاپیادہ کئے- آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا، حسین (علیہ السلام) میں میری سخاوت اور میری جراَت ہے-

چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا-

اسی وجہ سے آپ کا ایک لقب ابوالمساکین ہوگیا تھا-

راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھے اور غریب محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے، جن کے سبب آپ کی پشت مبارک پر نشان پڑ گئے تھے-

حضرت علیہ السلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمھارے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمھارے ہاتھ بیچ ڈالی- اب تمہارا فرض یہ ہے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کر کے کم سے کم اپنی ہی عزتِ نفس بچا لو-

غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے- ذرا ذرا سی بات پر آپ انھیں آزاد کر دیتے تھے-

آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ہوا تھا- مذہبی مسائل اور اہم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا-

آپ کی دعاؤں کا ایک مجموعہ صحیفہ حسینیہ کے نام سے اس وقت بھی موجود ہے ۔

آپ رحم دل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے-

ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہ ایک بار راستے میں چند مساکین بیٹھے ہوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رہے تھے کہ آپ کو پکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو حضرت علیہ السلام فوراً زمین پر بیٹھ گئے-

اگرچہ اس بناء پر کہ صدقہ آلِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حرام ہے، کھانے میں شرکت نہیں فرمائی مگر ان کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نہیں ہوا-

یزید بن معاویہ کے حکم پر 10 محرم 61 ہجری کو کربلا میں آپ کی بےجرم و خطا شہادت پر انسان تو کیا، جنوں، فرشتوں اور حیوانات تک نے گریہ کیا۔

اس شہادت عظمی پر سات دن تک اندھیرا چھایا رہا، دیواروں پر دھوپ کا رنگ زرد پڑ گیا، متعدد ستارے بھی ٹوٹے، آسمان نے چالیس دن تک خون کے آنسو بہائے اور زمین نے چالیس دن تک لرز کر امام حسین علیہ السلام پر اظہارغم کیا۔

آپ کی شہادت کے دن سورج کو گرہن لگ گیا تھا اور مسلسل چھ ماہ تک آسمان کے کنارے سرخ رہے۔ بعد میں رفتہ رفتہ وہ سرخی جاتی رہی۔ البتہ افق کی سرخی جس کو شفق کہا جاتا ہے آج تک موجود ہے۔

واضح رہے کہ یہ سرخی شہادت امام حسین علیہ السلام سے پہلے موجود نہیں تھی۔

آپ کا روضہ مبارک کربلا عراق میں ہے جہاں ہر سال لاکھوں کروڑوں زائرین نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، جگر گوشہ بتول سلام اللہ علیہا کو سلام کرنے کے لئے دنیا کے کونے کونے سے حاضر ہوتے ہیں۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
جو شخص خدا کی خوشنودی کے لئے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے تو خداوندعالم اس کو آتش جہنم سے نجات عطا کرے گا اور قیامت کے دن اس کو امان دے گا، اور خداوندعالم سے دنیا و آخرت کی کوئی جو حاجت بھی طلب کرے گا، خداوند عالم اس کی حاجت پوری کردے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ انسان کو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ رحیم و کریم ہے اس نے انسان کے لئے جنت کا راستہ آسان اور جہنم کا راستہ مشکل بنایا ہے۔

انسان کے دل میں آئمہ کرام علیہ السلام کی محبت اور زیارت کا شوق، ایک قوی نشانی ہے کہ وہ اللہ تعالی کا محبوب ہے۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری