امریکی صدر کا ریاض دورہ اور آل سعود کی گیدڑ بھبکیاں (دوسری قسط)


امریکی صدر کا ریاض دورہ اور آل سعود کی گیدڑ بھبکیاں (دوسری قسط)

دنیا کی سب سے مقدس ترین سرزمین پر امریکی صدر ان کی اہلیہ، ان کا یہودی داماد اور بیٹی نے دین اسلام کی تعلیمات کا مذاق اڑایا لیکن ہمیں امریکہ یا غیروں سے کیا گلہ اگر آل سعود کفر و نفاق کا یہ بازار نہ سجاتے تو آج سرزمین حجاز سے یہ خبریں سننے کو نہ ملتیں۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: خطے کے تازہ ترین خبروں کے مطابق امریکہ اور سعودی عرب کے نئے معاشقے میں ایک سو دس ارب ڈالر دفاعی سمیت 380 ارب ڈالر کے مختلف معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں۔

چالیس سے زائد مسلمان حکمران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اسلام کے بارے میں لیکچر سننے کیلئے انتظار کی گھڑیاں سننے کیلئے تڑپ رہے تھے۔

طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ریگن کی بیٹی ایوانکا مسلمان ممالک کے سربراہوں کی بہو بیٹیوں کو اسلام میں خواتین کے حقوق سے بھی مطلع فرمائیں گی اور خواتین کی گول میز کانفرنس میں شریک ہوکر اپنے باپ ٹرمپ کے معاشقوں اور جنسی بے راہریوں کی داستانیں مزے لے لے کر سنائیں گی۔

دنیا کی سب سے مقدس ترین سرزمین پر امریکی صدر ان کی اہلیہ، ان کا یہودی داماد اور بیٹی نے دین اسلام کی تعلیمات کا مذاق اڑایا لیکن ہمیں امریکہ یا غیروں سے کیا گلہ اگر آل سعود کفر و نفاق کا یہ بازار نہ سجاتے تو آج سرزمین حجاز سے یہ خبریں سننے کو نہ ملتیں۔

امریکہ اور آل سعود ملکر ایران کیخلاف حجاز بنانے کیلئے اکھٹے ہیں اور دوسرے نام نہاد اسلامی حکمران بھی اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں امریکہ اور سعودی عرب کا ایران کیخلاف سازشوں کا ایک ماضی ہے جسے مختصر الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امریکہ میں جب بش صدارت کے عہدے پر فائز ہوا تو اس نے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے جو پالیسیاں اختیار کیں اس کے نتیجے میں اس وقت سے لیکر اب تک یہ علاقہ امریکہ کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ بھگت رہا ہے۔

سعودی عرب میں جو گروہ اس وقت برسراقتدار ہے وہ بظاہر امن و صلح کی باتیں کرتا ہے لیکن ان کے گفتار اور کردار میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کس لئے القاعدہ اور داعش کے سرغنوں کی حمایت کرتا ہے؟ آل سعود کس لئے عراق، یمن، بحرین اور لبنان پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں؟ سعودی عرب کے حکمران کن اہداف کو پیش نظر رکھ کر ایران کے خلاف مختلف علاقائی اور عالمی اتحاد بنانے میں کوشاں رہتے ہیں؟

ان تمام سوالات کا جواب یہ ہے کہ سعودیہ عرب اچھی ہمسائیگی کے اصولوں سے بے بہر ہے اور وہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتا ہے ان کی مدخلتوں کا یہ سلسلہ بحرین،یمن،افغانستان،پاکستان یہاں تک کہ سنٹرل ایشیا اور قفقاز کے ممالک تک پھیلا ہوا ہے

2001ء میں جب امریکہ نے افغانستان میں القائدہ کیخلاف آپریشن شروع کیا تو اسامہ بن لادن القائدہ گروہ سعودی عرب کیساتھ رابطے میں تھا۔سعودی عرب مشکلات کی ایک بڑی وجہ ہے نہ کہ مشکلات کے حل میں تعاون،سعودیہ عرب یمن کے حوالے سے ایران پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ یمنیوں کو ہتھیار فراہم کرتا ہے حالہ نکہ وہ خود گزشتہ دو سالوں سے اس غریب ملک پر رات دن بمباری کر رہا ہے،سعودیہ عرب کی جارحیت کے نتیجے میں دس ہزار سے زائد یمنی بچے،بوڑھے اور عورتیں موت کے گھاٹ اتارے گئے لکین سعودیہ عرب کی اب بھی یہی ضد ہے کہ وہ یمن میں اپنے من پسند شخص یعنی منصور الہادی کو یمن کا صدر بنا کر چھوڑے گا اور جب تک یمنی سعودیہ عرب کی اس بات کو نہیں مانیں گے تو فضا،زمین اور سمندر سے ان پر حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ سعودی عرب کا شمار عرب دنیا کے ان استبدادی ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور وہاں تکفیریت اور وہابی ازم کے ذریعے عوام کا استحصال کیا جاتا ہے۔

سعودیہ عرب کہ حکمرانوں کی مثال ذہنی بیماروں جیسی ہے جن کہ زوال کے دن شروع ہوچکا ہے سعودیہ عرب کی موجودہ حکومت کو اقتصادی سیاسی اور خارجہ تعلقات کے حوالے سے مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے۔

سعودیہ حکام اس وقت اپنی پوزیشن کو عالمی اور علاقائی سطح پر کمزور محسوس کر رہے ہیں اور شام اور عراق میں بھی انکی شکست یقنی ہوچکی ہے یہی وجہ ہے کہ ریاض اس وقت اپنی پوزیشن کی بحالی کیلئے ہاتھ پیر مار رہا ہے۔

سعودیہ عرب نے حال ہی میں ترکی کو بھی اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے لیے ایران کیخلاف  بے بنیاد الزامات لگانے پر مائل کیا ہے،حالہ نکہ ترکی بھی اس وقت سعودیہ عرب کی طرح ترکی بھی علاقائی سیاست میں شکست خوردہ ہے اور وہاں بھی ایران کو فرقہ وارانہ پالیسیاں اپنانے اور علاقے کو خطرات سے دوچار کرنے والے اقدامات انجام دینے جیسے الزامات عائد کررہا ہے۔

ترک صدر نے حال ہی میں بحرین، سعودی عرب اور اردن کا دورہ کیا جہاں پر ان کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ اس استقبال کی وجہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ شام کے حوالے سے ترکی اور مصر کی پالیسیوں میں فرق جبکہ دوسری طرف آل سعود کو عراق اور شام میں مسلسل شکستوں کا سامنا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وغیرہ کی خواہش ہے کہ ترکی کی مالی امداد کریں تاکہ شام میں موجود بظاہر اعتدال پسند بشار اسد مخالف مسلح گروہوں کی ترکی حمایت کرے اور اس طرح شام کے مسلح گروہوں میں اپنی لابی کو مضبوط کرسکیں۔

سعودی عرب نے بشار اسد مکالف نام نہاد اعتدال پسند مسلح گروہوں کو ایک سو ارب ڈالر کی مالی امداد دی ہے۔ سعودی عرب اس طرح کی مالی حمایت کے ذریعے اسلامی ممالک میں اپنی لابی کو مضبوط اور اپنے ایجنڈے پر کاربند رکھنا چاہتا ہے۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب عالم اسلام میں جیو پولیٹیکل اہداف رکھتا ہے یا صرف اپنے اثرورسوخ کو قائم کرنے کا خواہشمند ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان تمام سازشوں کے پیچھے آل سعود کی جاہ طلبی اور امریکی سازشیں ہیں جو عالم اسلام کو مسلسل اختلافات کا شکار رکھنے پر استوار ہیں۔

سعودیہ عرب افریقا میں بھی فرقہ وارانہ اختلافات پھیلا رہا ہے،سعودی عمل دخل کا ہی نتیجہ ہے کہ افریقی ممالک میں گزشتہ عشرے میں نعصب،انتہا پسندی،فرقہ واریت اور عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ سعودیہ عرب نے اس کام کا آغاز نائیجیریا سے کیا ہے اور میگزین گلوبسٹ کے مطابق سعودی عرب نائیجیریا اور دیگر ممالک میں افراتفری کا باعث ہے۔

اس کا آغاز 1999ء میں ہوا جب بوکو حرام نے زامفارا علاقے میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور اسے شریعت کے نفاز کے لیے پہلا علاقہ قرار دیا۔ بوکو حرام اور حکومت کے درمایان جب اختلافات بڑھ گئے تو بوکو حرام کے بانی اور رہنما محمد یوسف کو جب حکومت نے گرفتار کرنا چاہا تو اس نے سعودیہ عرب میں پناہ لے لی اور آل سعود نے اس کوسلفی علماء بلخصوص بڑے بڑے سلفی علماء سے متعارف کرایا اور اس کو عالم اسلام کی اہم ژخصیت کے طور پر متعارف کرنے کی کوشیش کی۔ نایئجیریا کے میڈیا اور اہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودیہ عرب نے بعد میں اسی محمد یوسف کو شاملی نایئجیریا میں تکفریت اور انتہا پسندی کو رواج دینے اور شیعہ مسلمانوں کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت، مذہبی حلقے آل سعود کے اہم اوزار اور بڑے بڑے تجار نے مختلف لبادوں من جملہ سفارتکاری، مذہب، تجارت اور سرکاری آمد و رفت کے زریعے براعظم افریقہ میں مذہبی اختلافات کےبیچ بوئے اور انتہا پسندی اور مذہبی دہشتگردی کوفروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

سعودیہ عرب کی حکومت کی پالیسیاں بوکو حرام ،القائدہ اور الشباب جیسے انتہا پسند گرہوں کی مضبوطی کا باعث بنیں۔ ان تمام نتظیموں کی آئیڈیالوجی اور نظریات تکفیری سلفی تصورات پر اتور ہیں اور اس کا مرکز سعودیہ عرب اور آل سعود ہیں۔

سعودی عرب کی ان پالیسیوں کا بنیادی ہدف علاقے میں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں کرنا ہے۔ سعودی عرب اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا چاہتا ہے سلامتی اور سیکورٹی کے شعبے میں سعودی عرب کا امریکہ اور برطانیہ وغیرہ سے بڑے بڑے معاہدے اور مشرق وسطیٰ میں امریکی اور برطانوی فوجی اڈوں کو اسی تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے قرائن سے محسوس ہوتا ہے کہ اب امریکہ مشرق وسطیٰ میں براہ راست کردار ادا کرنے کی بجائے اپنے اتحادیوں اور ایجنٹوں سے یہ کام لینا چاہ رہا ہے۔ اس حوالے سے امریکہ اور برطانیہ کی اسٹریٹجی تین حصوں پر مشتمل ہے۔

پہلے مرحلے میں سعودی عرب کو خطے میں سیکورٹی کے حوالے سے اہم طاقت میں تبدیل کرنا ہے جس کے پیچھے امریکہ اور برطانیہ کی واضح حمایت شامل ہوگی۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس خطے میں فوجی موجودگی میں اضافہ ہے اور سعودی عرب نے اس میں کافی حد تک پیشرفت بھی کی ہے۔

اس منصوبے کا دوسرا حصہ اسلامی جمہوریہ ایران کو خطے میں تنہا کرنا ہے اور سلامتی اور سیکورٹی کے شعبوں میں اس کو الگ تھلگ کرنا ہے۔ اس مقصد تک پہنچنے کیلئے ایرانو فوبیا کو رواج دینا ہے اور ایران کو علاقے کے لئے ایک خطرہ بناکر پیش کرنا ہے۔

اس منصوبے کا تیسرا حصہ عرب ممالک پر عرب شناخت کے ساتھ ایک الائینس تشکیل دینا ہے۔

اس وقت مشرق وسطیٰ بحران کا شکار ہے اور شام، عراق، یمن، بحرین اور لیبیا میں صورتحال انتہائی بحرانی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ اس ماحول کو ایران کیخلاف استعمال کررہے ہیں اور عرب ممالک میں ایرانو فوبیا کو ہوا دیکر اپنے مقاصد حاصل کررہے ہیں۔

خطے میں ایران کی طاقت سے عرب ملکوں کے حکمرانوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے اور منفی پروپیگنڈوں سے فرقہ وارانہ فضا تیار کی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کیلئے اصل مسئلہ ایران نہیں بلکہ سعودی عرب کی مداخلت پسندانہ پالیسیاں ہیں جو بعض ممالک میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کی صورت میں ظاہر ہورہی ہیں۔ سعودیہ عرب کی ان غلط پالیسیوں کیوجہ سے خطے کو دہشتگردی، انتہا پسندی اور اقتصادی زبوں حالی جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ سعودیہ عرب بھی امریکہ کیطرح دہشتگردی کے مکمل خاتمے پر یقین نہیں رکہتا،جسطرح امریکہ القائدہ کو ختم نہیں کرنا چاہتا سعودیہ عرب اسی طرح داعش کے خلاف جنگ میں سنجیدہ نہیں ہے۔

سعودی عرب کی فوجی برتری کے پیچھے بیرونی یعنی مغربی طاقتوں کا عمل دخل ہے اور امریکہ اور برطانیہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس خطے پراپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کے پیش نظر اس نے بڑی طاقتوں سے مختلف فوجی معاہدے کئے ہیں۔

امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی سعودی عرب کی طرف سے ایران پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات کو سراہا ہے، ٹرمپ بھی اپنے پیشرووں کی طرح سعودی عرب کے پیٹرو ڈالروں سے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور سعودی الزامات کو بہانہ بناکر ایران کے خلاف پابندیوں اور دباو کو برقرار رکھتا چاہتا ہے۔ ٹرمپ نے تو کھل کر اور بار بار یہ کہا ہے کہ اگر عرب ممالک اپنی سلامتی کے خواہشمند ہیں تو انہیں امریکہ کو اس کے اخراجات ادا کرنا ہوں گے۔ امریکی صدر کے اس موقف سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ہر فیصلے میں تجارتی رجھان غائب ہے چاہے وہ سلامتی اور سیکورٹ کے مسائل ہی کیوں نہ ہوں۔

حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب نے ایران کے خلاف جو پالیسی اپنائی رکھی ہے اس کا بنیادی ہدف علاقے میں امریکی فوجی موجودگی میں اضافہ کرنا ہے اور ایران کو دفاعی حوالے سے مختلف چیلنجوں سے دوچار کرنا ہے۔

ایران خطے میں بیرونی طاقتوں کے بغیر باہمی مشارکت اور یکجہتی کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر علاقائی ترقی و پیشرفت کا خواہاں ہے جبکہ سعودی عرب کی یہ پالیسیاں ایران کی حکمت عملی کے مکمل خلاف ہیں۔ ایران باہمی مشارکت، اتحاد و وحدت اور یکجہتی کی پالیسیوں کو آگے بڑھانا چاہتا ہے جبکہ سعودی عرب اختلافات، فرقہ واریت اور کشیدگی کے ماحول میں اپنے اہداف حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔ سعودی عرب کی یہ پالیسیاں خطے کے مستقبل کیلئے ایک بڑا خطرہ ثابت ہونگی۔

جاری ہے ۔۔۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری