وہابیت کی آل عبدالعزیز سے آل سلمان میں منتقلی

وہابیت کی آل عبدالعزیز سے آل سلمان میں منتقلی

محمد بن سلمان کی امریکی حمایت کیساتھ واشنگٹن سے واپسی کے بعد آل سعود خاندان میں سازشیں شروع ہو گئی ہیں۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے بیرون ملک دورے کے لئے اپنی مرضی اور پسند سے سعودی عرب کا انتخاب نہیں کیا تھا بلکہ یہ ان کی مجبوری تھی تاکہ امریکہ اقتصادی طور پر مزید مضبوط ہو اور آئندہ کیلئے بھی سپر پاور بنا رہے۔

ٹرمپ حکومت کے ابتدائی دنوں سے ہی ان کے معاونین نے یہ کوشش کی ہے کہ ٹرمپ اپنے پہلے غیر ملکی دورے سے ہی امریکی اقتصاد کو استحکام بخشیں اور یہ دورہ اسرائیل کے لئے بھی فائدہ مند ہو۔

ٹرمپ کے پہلے غیر ملکی دورے سے قبل بعض مشکلات موجود تھیں اسی لئے ٹرمپ نے اپنے بیرون ملک سفر سے قبل ہی محمد بن سلمان سے واشنگٹن میں ملاقات کو اپنے ایجنڈے کا ایک اہم حصہ قرار دیا۔

ٹرمپ کے سعودی شہزادے محمد بن سلامان سے ملاقات کے بارے میں اقرار میں زیادہ دیر نہیں لگی اور ایک سعودی تاجر اور ٹرمپ کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بعد ٹرمپ محمد بن سلمان سے ملاقات کے لئے راضی ہو گئے۔

اس ٹیلیفونک کال نے ٹرمپ کی دلی خواہش کو بھی پورا کر دیا۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم جو چاہتی تھی وہ حاصل ہو گیا۔ یہ ٹیلی فون کال ریاض اور واشنگٹن کے درمیان 500 ارب ڈالر کے معاہدے کا سبب بنی۔

اس کے بعد ٹرمپ نے بہت گرمجوشی سے محمد بن سلمان کا استقبال کیا۔ یہ ملاقات دونوں ممالک کے لئے بہت اہمیت کی حامل تھی اس لئے بھی کہ اس ملاقات کے معنی یہ تھے کہ محمد بن سلمان ہی سلمان بن عبد العزیز کے بعد سعودی عرب کا نیا بادشاہ ہوگا نہ محمد بن نائف۔

یہ ملاقات ایک سازش کے تحت انجام پائی اور اس معنی میں کہ اب وہابیت اول یعنی آل عبدالعزیز کا دور گزر گیا اور وہابیت کی دوسری نسل یعنی آل سلمان کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔

تیل، گیس، اقتصاد اور دیگر حساس سیاسی اور مالی امور میں اہم منصب پر فائز آل عبد العزیز کے افراد بر طرف کر دئے گئے ہیں اور آل سلمان کے افراد کو ان عہدوں پر فائز کردیا گیا ہے۔

اس کام کی شروعات واشنگٹن میں سعودی سفیر کی تقرری سے ہو چکی ہے کیوںکہ واشنگٹن میں سعودی سفیر امریکہ اور محمد بن سلمان کے درمیان رابطے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے جو آل سلمان کیلئے قدرت اور طاقت کا ضامن بنے نہ کہ آل عبد العزیز کیلئے۔

ٹرمپ نے آل سلمان کی حمایت کرنے کی خاطرخواہ قیمت وصول کی ہے۔ ٹرمپ نے محمد بن سلمان کو بدلے میں وہ فہرست سونپی کہ انسان کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں لیکن محمد بن سالمان نے بادشاہت کی لالچ میں وہ سب کچھ خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کر لیا ہے۔

ٹرمپ نے اس معاہدے کو تاحیات معاملہ قرار دیا ہے

یہ ایسا معاہدہ ہے کہ جس کے بہانے امریکی صدر اپنی عوام کو محمد بن سلمان کے ذریعے سے فریب دیتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس خاندان کے سرمائے کی بدولت امریکہ میں بے روزگاری ختم کی ہے یہ خاندان امریکہ کا انتخاب کردہ اور حمایت یافتہ ہے۔

اگر سعودی عرب امریکہ میں 200-300 ارب ڈالر سرمایہ کاری کرے تو اس ملک میں بے روزگاری کا نام و نشام بھی مٹ جائے گا۔

اس معاہدے کی دوسری شرط کے مطابق آل سعود امریکہ سے 100 ارب ڈالر کا اسلحہ بھی خریدیں گے جس کا 20 فیصد حصہ اسرائیل کو جاتا ہے یعنی امریکہ ان اسلحوں کی ساخت کا کام تل ابیب کے ذمے ڈالے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آل سلمان کی وہابیت چاہتی کیا ہے؟

محمد بن سلمان کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے صیہونی افسران کی نظارت میں ایک ٹیم نے فورا عملی قدم بھی اٹھا دیا۔ اس نظارتی ٹیم میں صیہونی وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور نائب وزیر خارجہ "ابرامز" کے نام قابل ذکر ہیں۔ ابرامز وہی شخص ہیں جس نے شام اور عراق کی نابودی کی منصوبہ بندی کی تھی۔

محمد بن سلمان کی مانگ

1۔ ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا اور اسے دہشت گردوں کا حامی اور مزاحمتی تحریکوں کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا۔

2۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ یعنی ایران، شام اور عراقی افواج نیز حزب اللہ اور یمن کی مشترکہ افواج نیز امریکہ اور اسرائیل مخالف قوتوں کے خلاف جنگ۔

3۔ اسرائیل کے بجائے ایران کو دنیائے عرب اور اسلامی ممالک کا دشمن ثابت کیا جانا تاکہ اسرائیل - سعودی عرب اور ان کے ہمنوا تہران کے خلاف متحد ہوں۔

4۔ امریکہ، اسرائیل اور آل سعود کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں کرنا اور نیٹو کی طرح مشرق وسطی کا ایک فوجی اتحاد بنانا جس میں اسرائیل بھی اہم کردار ادا کرے گا اور اس کی تربیت کا ذمہ امریکہ کے سر ہوگا جو ایران، عراق، حزب اللہ اور یمن کی مزاحمتی تحریکوں کے خلاف جنگ کی پالیسیاں بھی مرتب کرے گا۔

5۔ امریکہ کی جانب سے یمن کے خلاف بننے والے سعودی متجاوز اتحاد کی مدد کرنا نیز شامی اور عراقی فوجوں کے درمیان کسی بھی قسم کی ہماہنگی کو روکنا۔

6۔ اگرچہ امریکہ شام میں اپنے حملوں میں تیزی لایا ہے لہذا دہشت گرد تنظیموں کی حمایت میں واضح طور پر شامی افواج کو اپنے حملوں کا نشانہ بنانا۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری