یوم القدس اور امام خمینی (رہ)


یوم القدس اور امام خمینی (رہ)

بعض عرب حکومتوں نے رفتہ رفتہ صیہونی حکومت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔ اور اب یہ کہا جاسکتا ہےکہ اس وقت فلسطین کے مظلوم عوام اپنی مادر وطن کو واپس لینے کے لئے یکہ و تنہا رہ گئے ہیں اور ان کی مددو حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: یوم القدس ہر سال ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو اسلامی جمہوریہ ایران سمیت پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ ایران میں 1979 میں انقلاب کی کامیابی کے ایک سال بعد سے، ماہ رمضان کے آخری جمعے کو ملت فلسطین کی حمایت میں اس سلسلے میں ریلیوں اور جلسے جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

سات اگست 1979 کو یعنی ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ایک سال بعد بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) نے مسلمانان عالم سے اپیل کی کہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعے کو روز قدس کے عنوان سےانتخاب کریں اور اس روز فلسطین کے مسلمان عوام کے قانونی حقوق کی حمایت میں اپنے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔  اس وقت سے لے کر اب تک ہر سال اس دن کو عالمی سطح پر ہر سال یوم القدس کی ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور مسلمان اسرائیل سے اپنی نفرت و بیزاری کا اظہار کرتے اور فلسطین کے مظلوم عوام کی ٹھوس حمایت میں عدل و انصاف کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ روز قدس فلسطین، غزہ اور دیگر اسلامی ملکوں میں، اسرائیلی مظالم کے مقابلے میں امت مسلمہ میں وحدت و اتحاد کا سمبل ہے۔

فلسطین، تاریخ کے عظیم توحیدی ادیان کا گہوارہ ہے اور یہ مقدس سرزمین مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان ایک خاص مقام و منزلت کی حامل ہے۔ بیت المقدس ایک ایسا شہر ہے جس کی شرافت و عظمت اور تقدس، ادیان الہی کے ساتھ پیوست ہوگیا ہے۔ کیوں کہ یہ سرزمین تاریخ کے طویل دور میں پیغمبران خدا کے ظہور اور تبلیغ کا مرکز اور توحید وخداپرستی کے نور کا سرچشمہ رہی ہے اس لئے اس کی عظمت بہت بلند وبالاہے۔ مسلمانوں میں، اس سرزمین کے مقدس ہونے کی ایک تاریخ ہے۔

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعثت کے ابتدائی تیرہ برسوں میں کہ جب آپ مکہ میں زندگی گذار رہے تھے اور پھر مدینہ ہجرت کرنے کے سترہ مہینوں بعد تک آنحضرت (ص) اور سبھی مسلمان، مسجد الاقصی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے ۔ بیت المقدس، مکہ اور مدینہ کے بعد تیسرا مقدس شہر ہے۔ یہ مقدس مقام حضرت امام علی علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق دنیا میں بہشت کے چار قصروں، یعنی مسجدالحرام، مسجدالنبی، مسجد بیت المقدس، اور مسجد کوفہ میں سے ایک ہے مسجد الاقصی ایک اور لحاظ سے بھی مسلمانوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے اور وہ، اس کا تقدس اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہاں سے معراج پانا ہے۔ آنحضرت (ص) کو مسجدالحرام سے مسجدالاقصی لے جایا گیا تھا اور پھر وہاں سے آپ کو معراج حاصل ہوئی تھی اور آپ نے آسمانوں کی سیر کی تھی۔ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ مسجد الاقصی اسلامی مساجد میں ایک اہم ترین مسجد ہے اور اس میں عبادت کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔

اسلامی کتب میں بیت المقدس کے تقدس اور عظمت کے علاوہ وہ چیز جو موجودہ حالات میں مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کے لئے خاص اہمیت کا حامل بنا دیتی ہے صہیونیوں کے توسط سے، مغربی ملکوں کی حمایت سے اس پر غاصبانہ قبضہ ہونا ہے۔ اس سرزمین پر قبضے کی داستان کا تعلق پہلی عالمی جنگ کے بعد سے ہے۔ اس وقت کہ جب استکباری طاقتوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے ایسی سرنوشت رقم کی جس کا فلسطین کے بے گناہ بچوں اور عورتوں کے قتل اور ان کا عیش و آرام چھین جانے کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

نومبر 1917 عیسوی میں اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفورنے، برطانوی صہیونی فیڈریشن کے سربراہ لارڈ روچیلڈ کے نام ایک مراسلے میں کہ جسے بالفور اعلامیے سے شہرت حاصل ہوئی، فلسطین میں صہیونی یہودیوں کے لئے ایک حکومت کی تشکیل پر برطانیہ کی مواقفت کا اعلان کیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد، فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کے ساتھ ہی، اس سرزمین پر صہیونیوں کے توسط سے تدریجی قبضے کی راہ ہموار ہوگئی۔ 1948 میں صہیونی حکومت تشکیل پانے کے بعد، عرب ممالک نے اس غاصب حکومت کے ساتھ کئی جنگیں لڑیں جو ناکام رہیں۔

آخر کار بعض عرب حکومتوں نے رفتہ رفتہ صیہونی حکومت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔ اور اب یہ کہا جاسکتا ہےکہ اس وقت فلسطین کے مظلوم عوام اپنی مادر وطن کو واپس لینے کے لئے یکہ و تنہا رہ گئے ہیں اور ان کی مددو حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ لیکن 1979 کا سال، فلسطین کی تبدیلیوں اور دنیا کی تاریخ میں سنگ میل واقع ہوا۔ کیوں کہ اسی سال ایران میں رہبر کبیرانقلاب حضرت امام خمینی (رح) کی قیادت میں اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا ۔ ایک ایسا انقلاب جو غاصب صہیونی حکومت اور عالمی استکبار کے ساتھ کسی ساز باز کےبغیر آیا۔ اس انقلاب کی کامیابی کے بعد بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے مستضعفین کی مدد ونصرت کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر اقدام کیا اور صہیونی حکومت کے توسط سے فلسطین اور بیت المقدس پرقبضے کے خلاف، مسلمانوں میں اتحاد کے لئے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کا نام دیا۔

آپ نے اگست 1979 میں ماہ رمضان المبارک میں یہ اہم پیغام دیا . میں عرصۂ دراز سے غاصب اسرائیل کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا آرہا ہوں۔ میں تمام مسلمانان عالم اور اسلامی حکومتوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب حکومت اور اس کے حامیوں کی نکیل ہاتھ میں رکھنے کے لئے متحد ہوجائیں اور تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس قرار دیں اور مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت میں،مسلمانوں میں عالمی سطح پر اتحاد کا اعلان کریں۔

خداوند عالم سے کفار پر مسلمانوں کی کامیابی کا خواہاں ہوں۔ حضرت امام خمینی (رح) کا یہ اہم اور تاریخی اقدام، اولا تو مسئلۂ فلسطین کو زندہ رکھنے اور صہیونزم کے خطرے کی جانب  اسلامی حکومتوں اور مسلمانوں کی توجہ مبذول کرانے کے مقصد سے تھا اور دوسرے، بعض عرب حکومتوں کی خیانت کے مقابلے میں اسلامی غیرت اور بصیرت کو اجاگر کرنے کے لئے تھا۔ حقیقت میں بانی انقلاب اسلامی کی جانب سے یوم القدس کے اعلان، اور تمام اسلامی ملکوں میں اسے اہمیت دیئے جانے کے سبب فلسطین کا مسئلہ، عالم اسلام کے ایک اہم مسئلے میں تبدیل ہوگیا ۔ حضرت امام خمینی قدس سرہ الشریف نے فرمایا قدس کا دن ایک عالمی دن ہے، ایسا دن نہیں جو صرف قدس سے مخصوص ہو، مستکبرین سے مستضعفین کے مقابلے کا دن ہے ایک ایسا دن ہے کہ جس دن مستضعفین کو مسلح ہونا چاہئے تاکہ استکبار کی ناک زمین پر رگڑ دیں۔

یوم القدس ایک ایسا دن ہے کہ جس دن مستضعف قوموں کی تقدیر کا فیصلہ ہو اور مستکبرین کے مقابلے میں مستضعف قومیں اپنے وجود کا اعلان کریں ۔امام خمینی (رح) نے اسی ابتدا سے ہی اسلامی تشخص اور اسرائیل کے ساتھ جہاد کے اعتقادی پہلو کو، فلسطین کے مظلوم عوام کو آمادہ کرنے، اور پوری امت مسلمہ سے فلسطینوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ کارساز روش قرار دیا اور اس کے علاوہ نیشنلسٹ اور غیر اسلامی نظریات کو قدس کی آزادی کے لئے انحراف سے تعبیر کیا۔

فلسطین کے مسئلے پر حضرت امام خمینی (رح) کی تاکید عالم اسلام کے لئے اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر ہے ۔ صہیونیزم کی فکر، دین یہود کی تعلیمات سے جدا ایک فکر، اور اس آسمانی دین سے منحرف ایک فرقہ ہے۔ یہ فکر اور اس سے وجود میں آنے والا اسرائیل، مسلمانوں کی صفوں میں پھوٹ ڈالنے اور مشرق وسطی پر تسلط کے لئے،استعمار کا ساختہ پرداختہ ہے۔

حضرت امام خمینی (رح) فرماتے ہیں اسرائیل مغرب اور مشرق کی استعماری حکومتوں کی ہم آہنگی اور ہم فکری سے وجود میں آیا اور آج اسے تمام استعماری طاقتوں کی حمایت و پشپناہی حاصل ہے ۔ برطانیہ اور امریکہ، اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں سے مسلح کرکے اور اسے فوجی اور سیاسی لحاظ سے مضبوط بنانے کے ذریعے مسلمانوں اور عربوں کے خلاف جارحانہ کاروائیاں انجام دینے پر اسے ورغلاتے رہتے ہیں۔

صہیونی حکومت مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کے ذریعے مشرق وسطی میں اپنی دائمی بقاء کے لئے ایک پرامن ٹھکانے کے درپے ہے ۔ کیوں کہ اسرائیل نے اپنے وجود کے وقت سے ہی مشرق وسطی میں لڑاؤ حکومت کرو کی پالیسی اختیار رکھی ہے۔ اسی لئے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مشرق وسطی میں تکفیری گروہ کس طرح سے شام اورعراق میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا بدترین حالت میں قتل عام کررہے ہیں لیکن غاصب اور جارح اسرائیل کے خلاف کوئی موقف نہیں اپنا رہے ہیں ۔ یہ کیا اندھیر ہے کہ جو اسلامی احکام پر عملدرآمد کے مدعی ہیں وہی اسلام کے سب سے واضح اصول یعنی مسلمانوں اور مستضعفوں کی حمایت کو ذرا بھی اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ یہ تمام چیزیں اس بات کی غماز ہیں کہ تکفیریوں کی جارحیت، عالمی استکبار اور صہیونی امنگوں سے ہم آہنگ ہے اور ان جارحانہ کاروائیوں کا براہ راست فائدہ اسرائیل کو پہنچ رہا ہے جبکہ بعض رپورٹوں اور خبروں سے تکفیری گروہوں اور صہیونی حکومت کے ساتھ تعاون کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ لیکن وہ چیز جو امت مسلمہ کے درمیان نا اتفاقی پیدا کرنے اور فلسطین پر قبضہ جاری رہنے کے لئے صہیونی حکومت کی سازشوں کو ملیا میٹ کردیتی ہے، مسلمانوں کا باہمی اتحاد ہے۔ لہذا یہ غاصب اور کھوکھلی حکومت اپنی طاقت کے مظاہرے کے لئے گاہے بگاہے بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں پر بموں اورمیزائیلوں کی بوچھار کردیتی ہے۔ یہ نا اہل اور ناجائز حکومت، بچوں اور مظلوموں کا خون بہا کر یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی ان وحشیانہ کاروائیوں سے مسلم قوموں اور مجاہدوں کے دلوں پر خوف و دہشت طاری کردے گی۔ لیکن جتنا زیادہ خون بہہ رہا ہے مزاحمتی حلقوں کے حوصلے اور بلند ہورہے ہیں اور مسلمانوں میں مزید اتحاد بڑھتا جارہا ہے ۔ یہاں تک کہ امریکہ کے مشرق قریب کی تحقیقاتی مرکز نے "آخری زمانے میں اسرائیل" کے عنوان سے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ 2025 میں اسرائیل کا وجود ختم ہوجائے گا۔ اس لحاظ سے کہ مسلمانوں میں اتحاد ہی ، صہیونزم اور عالمی استکبار کے اہداف کے مقابلے میں کامیابی کا واحد راز ہے، امام خمینی (رہ) نے اپنی سیاسی بصیرت کے ذریعے عالمی یوم القدس کا اعلان کردیا۔ 

ایک ایسا دن جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے مستحکم ہونے کا باعث بناہے۔ پاکستان کے دانشور پرویز شفیع کہتے ہیں ۔ قدس کا دن نہ صرف فلسطینی امنگوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے بلکہ مسلمانوں میں اتحاد کے حوالے سے اس کی خاص اہمیت، ہے ۔ حضرت امام خیمنی (رہ) وہ پہلے شخص ہیں کہ جنہوں نے یوم القدس کی بنیاد رکھی کیوں کہ قدس کی آزادی کا مسئلہ، عالم اسلام کے ان معدودے چند مسائل میں سے  ایک ہے کہ جس پر سنی شیعہ سب کا اتفاق ہے۔

اسرائیل ہرگز امن کے عمل کو نتیجہ خیز ہونے دینا نہیں چاہتا۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے واحد راستہ جوبچتا ہے، مزاحمت کا راستہ ہے لہذا اگر مسلمان اس روش پر ثابت قدم رہیں تو یہ تمام مسلمانوں کے فائدے میں ہوگا۔ ایسے میں جبکہ صہیونی حکومت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، یوم قدس کی ریلیوں میں مسلمانوں کی بھرپور شرکت اس ظالم حکومت پر ایک اور کاری ضرب لگا‏‏ئے گی اور اس غاصب حکومت کے علاقائی اورغیر علاقائی حامیوں پر ثابت کردے گی کہ مسلمانوں میں اتحاد و یکجہتی کی قوت، تمام ہتھیاروں اور بموں سے زیادہ ہے جو اس غاصب حکومت کو سرنگوں کردے گی۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری