بحران شام --- ماضی، حال اور مستقبل (حصہ دوم)


بحران شام --- ماضی، حال اور مستقبل (حصہ دوم)

شام کا بحران تشکیل کے مرحلے کو عبور کر کے پھیلاؤ اور وسعت کے مرحلے سے عبور کر رہا هے اور اس بحران کے خاتمے یا کمی کی علامات ظاهر ہو رہی ہیں۔

خبر رساں ادارہ تسنیم:  معروف تجزیه نگار مائیکل برچر اپنی کتاب "عالمی سیاست میں بحران" میں لکھتا هے که هر بحران کے چار مراحل ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ اس بحران کا آغاز دوسرا اس میں وسعت تیسرا مرحلہ اس میں کمی  اور چوتھا مرحلہ اس کے اثرات۔

شام کا بحران تشکیل کے مرحلے کو عبور کر کے پھیلاؤ اور وسعت کے مرحلے سے عبور کر رہا هے اور اس بحران کے خاتمے یا کمی کی بھی علامات ظاهر ہو رہی ہیں۔ جنیوا اور  اس کے بعد آستانہ مذاکرات اس کی واضع نشانیاں ہیں۔ حلب میں شامی افواج کی کامیابی نے شام میں امن و صلح کے ماحول کو ممکن و سازگار بنا دیا ہے تاہم ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیاں اور امریکہ روس حالیہ صف آرائی نیز ریاض اجلاس سے صورت حال پر منفی اثرات پڑے ہیں۔

اس بحران کے آغاز کے مرحلے میں تین طرح کے عناصر داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی ملوث تھے اور اس بحران کو کم کرنے کے لیے بھی ان تینوں عناصر کا ایک صفحے پر ہونا ضروری ہے۔ جس طرح اس بحران کو شروع  کرنے میں علاقائی اور عالمی طاقتوں کا عمل دخل زیاده تھا اسی طرح بحران  کے خاتمے یا کم کرنے کے لیے بھی ان عناصر کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس کی ایک بڑی اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ شام کے بحران نے علاقائی سیاست پر بھی بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

شام کے بحران کا اگر سرسری جائزه لیا جائے تو اس بحران کے ذمہ دار  ترکی اور سعودی عرب کو ابھی تک اس میں کچھ حاصل نہیں ہوا ہے یہی وجہ ہے  کہ یہ ممالک بحران کے خاتمے میں زیاده سنجیده نہیں ہیں اور ترکی تو شام میں سلامتی کے بارے میں باقاعده دهمکیوں پر اتر آیا ہے البتہ ترکی کو سعودی عرب کی نسبت  اس بحران کی وجہ سے زیاده نقصان پہنچا ہے اس کی چند مثالیں ترکی کے مختلف شہروں میں دہشت گردانہ  دھماکے اور شامی کردوں کیطرف سے ترکی کو دھمکیاں بھی شامل ہیں۔ ترکی کی  حکومت اور کرد رہنما مسعود بارزانی کے درمیان اچھے تعلقات ہیں اس کے باوجود خود مختار  ترک کے قیام کے لیے سعود بارزانی شامی کردوں کی حمایت کر رہا ہے جو ترک حکومت کے لیے خطره ہیں۔ دوسری طرف امریکہ بھی شامی کردوں کی حمایت کرتا ہے  جس کی وجہ سے ترکی  اور امریکہ  میں کشیدگی روز بروز بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں ترکی روس کے قریب ہو رہا ہے البتہ روس بھی شامی کردوں کا حامی نظر آرہا ہے  کردوں کی خود مختاری اور کرد بنیادوں پر ایک نئی مملکت کی  تشکیل مشرق وسطی کے جغرافیائی اور سیاسی نظم کو بدل کر  رکھ دے گی اور یہ علاقہ لیبیا اور یمن جیسے فیڈرل نظام کی  طرف مائل ہو سکتا ہے کیونکہ ان علاقوں میں آبادی کی ترتیب قومی، نسلی اور مذهبی بنیادوں پر استوار ہے تو شام  اور عراق کو ان بنیادوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے اور یہ اسرائیل اور اس کے حامیوں کی دیرینہ خواہش رہی ہے۔

مائیکل برچر کی نگاه میں بحران کا چوتھا مرحلہ اس کے اثرات ہیں جو علاقائی کے ساتھ ساتھ عالمی بھی ہو سکتے ہیں۔

مشرق وسطی کے امور کے معروف تجزیہ کار باری بوزان کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی میں سلامتی کا موضوع ایک معمہ سے کم نہیں۔ بوزان کے مطابق ایک مسئلہ اس وقت معمہ بن جاتا ہے جب اس کے بارے میں سوچنے سے اس کا نتیجہ برعکس نظر آتا ہے۔ مشرق وسطی میں ایک ملک دوسرے کا دوست ہے اور دوسرا تیسرے کا دشمن ہے لہذا کسی ایک ملک کی بھی مدد نہیں کی جاسکتی کیونکہ کون کس کا  مخالف ہے فوری طور پر سمجھ نہیں آتی۔

ایک اور امریکی تجزیہ کار اسٹیفن وائٹ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی الائنس ایک خطره ہے ناکہ طاقت کا توازن۔ اسٹیفن وائٹ کے بقول علاقے کی حکومتیں خطرات کے مقابلے کے لیے اپنے اتحادیوں کیطرف دیکھتی ہیں کیونکہ یہ کسی دوسرے ملک کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اپنے لیے خطره سمجھتے ہیں۔ بوزان اور وائٹ کے تجزیوں سے مشرق وسطی کی موجوده صورت حال کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے شام ایک وقت علاقائی اور عالمی طاقتوں کی رقابتوں اور رسه کشی کا مرکز بنا ہوا ہے گویا ایک نئی سرد جنگ کا  مرکزی نقطہ بن گیا ہے۔ اس بحران کیوجہ سے سعودی عرب اور ترکی ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں اور ترکی  اور ایران کی قدیمی دوستی اختلافات کا شکار ہے۔

دوسرے لفظوں میں ترکی کے سعودی عرب کی قریب جانے سے اس کے ایران سے فاصلے بڑھ گئے ہیں حالانکہ اس سے پہلے ایران اور ترکی کے بہت اچھے تعلقات تھے۔

شام کا مستقبل کیا ہو گا اس سے قطع نظر اس وقت علاقائی ممالک کے باہمی تعلقات میں نئی نئی پیچیدگیاں سامنے آرہی ہیں۔ اختلافات کی ایک وجہ شامی حکومت کے خلاف سرگرم گروہوں کے بارے میں علاقائی ممالک کے مواقف ہیں اور اس میں مذھب، جغرافیا، قومیت، زبان اور بیرونی الائنس کا واضح عمل دخل ہے۔

اگرچہ اس وقت شام کا بحران پھیلاؤ سے سمٹنے کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے لیکن اس کے خاتمے کے لیے اندورنی، علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کی اشد ضرورت ہے البتہ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ شام میں آئنده کی حکومت علاقائی نظم کو واضح کرے گی گویا مشرق وسطی میں ایک نیا سیاسی نظام تشکیل پانے جا رہا ہے۔ ممکن ہے شام میں ایک وفاقی یا موجوده نظام یا پارلیمانی نظام تشکیل پائے اور ان میں  سے ہر نظام علاقائی طاقتوں پر الگ الگ اثرات مرتب کرے گا یہی وجہ ہے کہ علاقے کی موثر طاقتیں اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ شام کے بحران سے متعلق مذاکرات میں براه راست اپنا کردار ادا کریں۔ ہر طاقت یہ چاہتی ہے کہ وه اس بحران سے زیاده سے زیاده استفاده کرے البتہ اگر علاقے کی موثر طاقتوں نے باہمی اتفاق سے بحران کو حل نہ کیا تو سب کے حصے میں ناکامی کے علاوه کچھ نہیں آئے گا۔ البتہ ان تمام ممالک کو چاہئے کہ  وه شام کی ارضی سالمیت کے تحفظ کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ اس بحران کے منفی اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔

جاری ہے ۔۔۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری