بحران شام --- ماضی، حال اور مستقبل (حصہ چھارم)


بحران شام --- ماضی، حال اور مستقبل (حصہ چھارم)

شام سے متعلق ایجنڈا صیہونی لابی کی طرف سے ترتیب دیا جاتا ہے اور آئنده کی منصوبہ بندی بھی صہیونیوں کی طرف سے ہی بنائی جاتی ہے تاہم بدقسمتی یہ ہے کہ اس ایجنڈے اور منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان جنگ میں ساده لوح مسلمانوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: جیسا که ہم پہلے بھی اشاره کر چکے ہیں کہ شام میں بیرونی دہشت گردوں کا بنیادی ایجنڈا غاصب صہیونی حکومت کو محفوظ بنانا تھا البتہ اس میں بھی کوئی شک نہیں که داعش، النصره  اور اس مائنڈ سیٹ کے جتنے بھی دہشت گرد ہیں ان میں اسرائیل، دین، مذہب اور اسلامی خلافت کے بارے میں ایک جیسی سوچ نہیں ہے ان میں ایک محدود تعداد تو دینی خدمات کے تحت بھی قربانیاں دے رہی ہے لیکن داعش اور اس سے ملتی جلتی شام میں دیگر دہشت گرد کی سینٹرل کمانڈ امریکی پے رول پر ہے۔

آئنده کا ایجنڈا بھی صیہونی لابی کی طرف سے ترتیب دیا جاتا ہے اور آئنده کی منصوبہ بندی بھی صہیونیوں کی طرف سے بنائی جاتی ہے تاہم بدقسمتی  یہ ہے کہ اس ایجنڈے اور منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان جنگ میں ساده لوح مسلمانوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

مشرق وسطی میں تکفیری گروپوں کو منظم کرنے کے پیچھے بھی سازش کار فرما تھی یعنی اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو پھر بھی مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچے گا اور اگر دہشت گرد شام، عراق اور لبنان میں اپنے وسیع تر منصوبے کے حصول میں ناکام بھی ہو گے تو تب بھی ان تکفیری دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد میدان جنگ میں ختم ہو جائیگی جس کا ایک فائدہ تو امریکہ ہی کو ہوگا کیونکہ اس نے ان سے شیعہ سنی اختلاف کو جو ہدف پورا کرنا تھا وہ دونوں صورت میں حاصل ہوجائے گا۔

چھ سال پہلے جب دنیا بھر سے تکفیری دہشت گرد  شام میں اکھٹے ہو رہے تھے تو اس وقت بھی سید حسن نصرالله نے کہا تھا که جہاد اور خلافت کے نام پر امریکہ دنیا بھر سے مسلح تکفیریوں کو یہاں جمع کر رہا ہے تاکہ ان کا یہاں پر قلع قمع کیا جا سکے۔ آج یہ تکفیری اسرائیل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

النصره کے بارے میں تو مصدقہ اطلاعات ہیں کہ اس کو مکمل طور پر اسرائیل سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس کی زنده مثال النصره فرنٹ کے زخمیوں کا اسرائیل میں علاج ہے۔ اسی طرح جب  بھی النصره فرنٹ شامی فوج کے نرغے میں پھنستا ہے تو امریکہ و اسرائیل شامی فوج کے خلاف بمباری کر دیتے ہیں۔

حال ہی میں غاصب صہیونی حکومت نے شام کے خلاف حملوں میں تیزی لائی ہے اور اس کی ایک علامت صہیونی جنگی طیاروں کی جانب سے شام کے علاقے قنیطره پر حالیہ وحشیانہ بمباری  ہے۔

گزشته ہفتے شامی فورسز اور النصره فرنٹ کے درمیان سخت جھڑپ کے بعد اسرائیلی طیاروں نے دہشت گرد گروه النصره کو شکست سے بچانے کے لئے شمالی صوبے  جولان اور قنیطره میں شامی فوجی ٹھکانوں کو میدانی حملوں کا  نشانہ بنایا ہے۔

صہیونی میڈیا اس حملے سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ دعوی کر رہا ہے کہ اسرائیل نے یہ فضائی حملہ مارٹر گولوں کے حملوں کے رد عمل میں کیا ہے۔

صہیونی  طیاروں نے ایسے عالم میں اس علاقے  پر حملہ کیا ہے کہ دہشت گرد گروه بھی اس علاقے میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے درپے ہیں۔ دہشت گردوں اور صہیونی حکومت کا شامی فورسز کے خلاف اتحاد و گٹھ جوڑ اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ دونوں مشترکہ ہدف کے لئے شام میں سرگرم عمل ہیں۔ شام کا کچھ علاقہ خاص کر جولان کا بیشتر علاقہ صہیونی قبضے میں ہے اور غاصب اسرائیل دہشت گردوں کو شامی حکومت کے خلاف منظم کر کے اس اسرئیلی علاقے پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ استقامتی بلاک کو مشکلات سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔

خطے میں جب اسلامی بیداری کا آغاز ہوا تو مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں مغرب اور سعودی عرب نے اس تحریک کو منحرف کرنے کے لئے مختلف ممالک میں متعدد ہتھکنڈے استعمال کئے ان ہتھکنڈوں میں ایک مختلف ممالک سے دہشت گردوں کو شام میں اکھٹا  کر کے شامی حکومت کا خاتمہ تھا۔ شام میں داخل ہونے والے دہشگردوں کی ایک بڑی تعداد مغربی ممالک  سے لائی گئی۔ مغرب  اور بعض عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے حمایت یافتہ ان دہشتگردوں نے شامی عوام کو سب سے پہلا ہدف قرار دیا۔ شام کے مخالف سازشی عناصر اس ملک کو بحران سے دوچار کر کے نئے مشرق وسطی جیسے صہیونی منصوبے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں اور شام کو تقسیم کر کے صہیونی ایجنڈے کو مکمل کرنے کے خواہاں ہیں۔

لبنان کے معروف تجزیہ نگار ولید محمد علی کا کہنا ہے که دہشتگرد گروه امریکی آلہ کار ہیں اور ان کی ڈیوٹی علاقائی ممالک کو تقسیم کرنا ہے۔

المیادین ٹی وی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ شام میں سرگرم دہشتگردوں اور اسرائیل  کا قریبی گٹھ جوڑ ہے اور شام میں زخمی ہونے والے دہشتگردوں کا علاج اسرائیل میں ہوتا ہے۔ اسرائیلی دہشتگردوں کی لاجیسٹک حمایت بھی کرتا ہے اور اس حوالے سے شام میں سرگرم دہشتگردوں اور صہیونی حکومت کے درمیان متعدد ملاقاتیں ہو چکی ہیں اس تناظر میں مغرب کے پاس مشرق وسطی میں دو ہتھیار یعنی دہشت گردی اور صہیونیزم ہیں جن سے وه اپنے مذموم اہداف کے لئے کوشاں ہے۔

صہیونزم کا ہتھیار ماضی میں ناکامیوں سے دوچار ہوا ہے لہذا اب مغرب نے وہی کام دہشتگردی سے لینا شروع کر دیا ہے تاکہ خطے میں اپنے فتنہ پرور اور تسلط پسندانہ اہداف کو حاصل کر سکیں۔

دوسری طرف غاصب صہیونی حکومت جو گذشتہ دس عشروں سے فلسطینی  سرزمین پر قابض ہے امریکی حمایت سے اس بات میں کامیاب ہوئی ہے کہ خطے کو دہشتگردی کے بحران میں تبدیل کرے اور علاقائی ممالک کو کمزور کر دے تاکہ مسئلہ فلسطین ان ممالک کی ترجیحات سے خارج ہو جائے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم خطے میں صہیونزم اور ٹیررازم میں روز بروز بڑھتے ہوئے تعاون کا مشاہده کر رہے ہیں تاہم اس شیطانی گٹھ جوڑ نے شام کے عوام کو ایک سخت اور دشوار صورت حال سے دوچار کر رکھا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ غاصب صہیونی حکومت کی بربریت اور جارحیت پر اقوام متحده کی خاموشی اور بے عملی اس بات کا باعث بن رہی ہے کہ شامی عوام پر صہیونی اور انسانیت مخالف دہشتگردوں کی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔

دوسری طرف امریکہ نے شام کے خلاف ایک  بار پھر کیمیائی حملوں کا الزام لگانے کا ڈرامه رچا ہے۔  وائٹ ہاؤس نے شام کے سلسلے میں جو نیا سناریو شروع کیا ہے اس سے شام کے صوبۂ ادلب میں واقع خان شیخون کے علاقے پر چار اپریل سنہ دو ہزار سترہ میں کیمیاوی حملے پر مبنی اس کے دعوے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

امریکہ نے اس حملے کا دعوی کیا لیکن آج تک اس حملے کے بارے میں تحقیقات انجام نہیں دی گئی ہیں۔ امریکہ کے جنگ پسند اور مہم جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے سات اپریل کو الشعیرات ایئربیس پر حملے کا حکم دے دیا تھا۔ الشعیرات ایئربیس پر میزائل حملہ کر دیا گیا لیکن آج تک ایک بھی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہو کہ شام کی حکومت خان شیخون پر کیمیاوی حملے میں ملوث تھی۔

 

اس سلسلے میں معروف امریکی صحافی اور تجزیہ نگار سیمور ہیرش (Seymour  Hersh) کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کو اس بات کا  اچھی طرح علم تھا کہ خان شیخون پرجس کیمیاوی حملے کا دعوی کیا گیا ہے وہ ہوا ہی نہیں ہے۔ سیمور ہیرش نے ویلٹ ایم سونٹگ (Welt am Sonntag)  نامی جریدے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے خان شیخون پر حملے سے متعلق شام میں موجود امریکی فوجی اور ایک امریکی سیکورٹی مشیر کی گفتگو کی اہم خبر دی۔ اس گفتگو میں امریکی فوجی کہتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ کیمیاوی حملہ نہیں ہوا ہے بلکہ شام کی فوج نے داعش کے اسلحے کے ایک گودام پر حملہ کیا ہے۔

نئے کھیل سے پتہ چلتا ہے کہ وائٹ ہاؤس شام میں ایک نئےسناریو پر عمل کر رہا ہے۔ جس کا مقصد اس ملک میں ایک نئی مہم جوئی کا آغاز کرنا ہے۔ شام پر امریکہ کے ایک اور ممنکہ حملے کے بارے میں تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ اسی لئے روسی سینیٹ کے خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ کونس ٹینٹین کوسیچف  (Konstantin Kosachev) نے  گزشتہ بدھ کے دن کہا کہ امریکہ کی نئی مہم جوئی خوش آئند نہیں ہے۔ امریکیوں کو حتی اگر ایک نئے کیمیاوی حملے کے بارے میں معلومات ہیں تو وہ اس کی روک تھام کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ لیکن  اس میں کوئی شک نہیں کہ شعوری طور پر شام کے صدر کو نشانہ بنانے، اس ملک پر پیشگی حملے کی تیاری کرنے یا اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وائٹ ہا‎ؤس نے ایک بار پھر دعوی کیا ہےکہ شام کی فوج کیمیاوی حملے کی تیاری کر رہی ہے تو درحقیقت وائٹ ہاؤس کی یہ نئی مہم جوئی آگ کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے اور دہشت گرد اور مسلح گروہ اشتعال انگیز اقدامات کے لئے اس سے ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ شام میں اس وقت امریکہ اور روس آمنے سامنے ہیں دوسری طرف مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے مشرق وسطی جنگ کے دہانے پر ہے اور یہ جنگ اگر مزید پھیل گئی تو یہ صرف اس خطے تک محدود نہیں رہے گی امریکہ نے جس انداز سے آل سعود اور بعض دوسرے عرب ممالک کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے اس نے مسئلے کو مزید گھمبیر کردیا ہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری