الخلیل شہر کے فلسطین کی عالمی میراث کی حیثیت سے اندراج پر امریکہ کا رد عمل


الخلیل شہر کے فلسطین کی عالمی میراث کی حیثیت سے اندراج پر امریکہ کا رد عمل

اقوام متحدہ کے ثقافتی، علمی اور تربیتی ادارے یونیسکو کی طرف سے فلسطین کے شہر الخلیل کو فلسطین کی عالمی میراث کی حیثیت سے اندراج نیز نابودی کے خطرے سے دوچار عالمی آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کرنے پر امریکہ نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نیکی ہیلی نے مغربی پٹی میں واقع الخلیل شہر کو اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی طرف سے فلسطین کی عالمی میراث اور نابودی کی دہانے پر واقع عالمی آثار قدیمہ میں شامل کرنے پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو تاریخ کی بے حرمتی اور ناقابل فراموش حادثے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ یونیسکو سے اپنے تعلقات کے بارے میں نظر ثانی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ یونیسکو کا فیصلہ فلسطین اور غاصب صیہونیوں کے درمیان مذاکرات کے لئے امریکی صدر ٹرمپ کی محنتوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ امریکہ یونیسکو سے اپنے روابط پر غور کر رہا ہے۔

یونیسکو نے جمعہ کے روز غاصب صیہونی نمائندے کے شدید اعتراض کے باوجود مغربی پٹی کے سب سے بڑے شہر الخلیل کو عالمی فلسطینی میراث اور نابودی کے قریب عالمی آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

اس فیصلے کے حق میں 12 اور مخالفت میں 3 ووٹ ڈالے گئے جبکہ 6 ممالک نے اس ووٹنگ میں شرکت نہیں کی۔  

اس فیصلے سے صیہونی حکام سیخ پا ہو گئے ہیں۔

صیہونی وزیر اعظم نتانیاہو نے حکم جاری کیا ہے کہ اقوام متحدہ کو ملنے والی صیہونی امداد میں سے ایک میلین ڈالر کم کر دئے جائیں۔

2 ہزار سال قدیمی شہر الخلیل میں تقریبا دو لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ حال ہی میں غاصب صیہونی حکومت کی جانب سے تعمیر شدہ رہائشی یونٹس میں اس تاریخی شہر کے آثار قدیمہ کے نزدیک کچھ یہودیوں کو آباد کیا گیا ہے جس کے سبب یہاں آثار قدیمہ کے لئے خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔  

اس سے پہلے بھی یونیسکو نے غزہ پٹی اور قدس شہر میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے سبب صیہونی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے صہیونیوں سے قدس کے تاریخی احترام و ادب کو ملحوظ خاطر رکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔ 

گزشتہ برس بھی یونیسکو نے ایسی ہی ایک اور قرارداد منظور کرتے ہوئے صیہونیوں کو بیت المقدس اور غزہ پٹی میں مسجد الاقصی کی عزت و حرمت اور تاریخی اور مذہبی اہمیت کے پیش نظر احترام کا خیال رکھنے پر زور دیا تھا۔ 

یونیسکو نے کہا ہے کہ اس قرارداد کے متن میں بیت المقدس کو ادیان توحیدی کے مرکز "اسلام، مسیحیت، یہودیت" کے طور پر اس لئے  ذکر کیا گیا ہے تاکہ قدس کو یہودی شہر کی شکل میں آباد اور مشہور کرنے کی صیہونی سازش کا قلع قمع کیا جا سکے۔

اس قرار داد میں تل ابیب کو استعماری قوت کہا گیا ہے اور مشرقی قدس کو مقبوضہ قرار دیکر اسے تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری