کشمیر؛ مزاحمتی تحریک میں القاعدہ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ یا انٹیلی جنس ایجنسیوں کا عمل دخل ؟ + ویڈیو


کشمیر؛ مزاحمتی تحریک میں القاعدہ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ یا انٹیلی جنس ایجنسیوں کا عمل دخل ؟ + ویڈیو

کچھ عرصہ پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں "انصار غزوۃ الہند" کی میڈیا سیل "الحر" کے نام سے القاعدہ سے وابستہ ذرائع ابلاغ میں منظر عام پر آئی جس سے اس علاقے میں القاعدہ کی بڑھتی طاقت کا اندازہ ہوا اگرچہ اس کے نہایت سنجیدہ مخالفین بھی موجود ہیں۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: "انصار غزوۃ الہند" کے بیان میں ذاکر موسی نامی شخص کو کشمیر مسئلے کے حل کے لئے رہبر کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ ذاکر موسی کون ہے، کہاں سے آیا ہے ؟؟؟ یہ سمجھنے کے لئے ہمیں دو تین سال پہلے کے حالات پر نظر ڈالنی ہوگی وہ واقعات جنہیں کشمیر کا نیا دور اور جہاد و بیداری کا نیا مرحلہ کہا جا رہا ہے۔

یہ بات شروع ہوتی ہے برھان وانی کی موت کے بعد، جو حزب المجاہدین کا محبوب اور مقبول کمانڈر تھا اور 2016 میں ہندوستانی فوج کے ساتھ ہوئی جھڑپوں میں اپنے اور ساتھیوں سمیت شہید ہوا۔ 2016 کے آخر تک اعلیٰ تعلیم یافتہ برھان وانی کشمیری عوام کے درمیان مقبول تھا، خوبصورت، متدین اور تعصب سے دور جوان، ہندوستان آرمی کے لباس میں تصویریں لے کر سوشل میڈیا پر نشر کرنے والا برھان کشمیر کی خستہ حال نوجوان نسل کا نمائندہ تھا جس نے بھارت کی تمام ایجنسیوں کو الجھا کر رکھ دیا تھا یہاں تک کہ جب وہ جاں بحق ہوا تو بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی یقین نہیں تھا کہ جائے وقوعہ پر برھان وانی موجود ہے۔ انہیں اندازہ تھا کہ انہوں نے کشمیری جنگجووں کو گھیر رکھا ہے۔ برھان وانی کے بعد حزب المجاہدین نے  برھان وانی کے قریبی دوستوں میں سے ایک ذاکر موسی کو منتخب کیا۔ ذاکر موسی بھی کشمیر کی اسی تعلیم یافتہ نسل کا ایک اور جوان تھا جنہوں نے بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے تھے۔ وہ ہندوستانی یونیورسٹی میں انجینئرنگ کا طالب علم تھا اور 2013 میں کشمیر واپسی پر حزب المجاہدین کے ساتھ منسلک ہو گیا۔

وہ 2015 سے 2016 تک حزب المجادین کا کمانڈر تھا لیکن اس کے بعد اس کے اپنے گروہ اور اسی طرح کشمیر کے دیگر سیاسی چہروں اس کے درمیان آہستہ آہستہ اختلافات سامنے آنے لگے اب اس کے جو پیغامات نشر ہوتے تھے وہ اسلامی رنگ و بو کے حامل تھے یہاں تک کہ ایک پیغام میں اس نے کہا کہ کشمیر میں جہاد کا مقصد نہ آزادی ہے اور نہ ہی پاکستان سے الحاق بلکہ ہمارا مقصد جموں اور کشمیر میں اسلامی نظام حکومت رائج کرنا اور شریعت کے قوانین کا اجراء ہے۔

آزادی کشمیر کے لئے برسرپیکار حریت کانفرنس جیسی سیاسی جماعت نے کھل کر اس پیغام کی مخالفت کی، جس کے جواب میں ذاکر موسیٰ نے کشمیر کے لئے سیاسی جدوجہد کر نے والے اور حریت کانفرنس کے رہنماوں کو قتل کرنے کی دھمکی دیدی۔

2016 میں ذاکر موسیٰ نے انصار غزوۃ الھند نام کی تنظیم کی بنیاد ڈالی اور حزب المجاہدین سے الگ ہو گیا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس تنظیم کے مجاہدین حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ وغیرہ کے جنگجو ہیں جو اب اس کے ساتھ  مل گئے ہیں۔

گزشتہ دو برسوں میں ذاکر موسی کا ہدف شریعت اسلامی کا نفاذ، اسلامی نظام حکومت کا قیام رہا ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ کسی کو حق نہیں کہ اس تنظیم کے مارے جانے والے جنگجووں کے جنازوں پر پاکستانی پرچم لہرایا جائے بلکہ اس کی جگہ لا الہ الی اللہ لکھا ہوا پرچم ڈالا جائے۔

دینی اور ادبیاتی معلومات سے عاری ذاکر موسی اپنے پیغامات میں آیہ قرآن یا روایات کے ترجمہ پر اکتفا کرتا ہے اس کی تحریک میں تکفیری رنگ و بو کا مشاہدہ ہوتا ہے خاص کر جب کشمیر پولیس پر حملوں کی توجیہ اور بہانہ پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جو بھی کافروں کی حمایت یا ان کے ساتھ کام کرتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور ہمارے حملوں کا نشانہ بنے گا۔ حالانکہ اس نے ابھی دیگر مذاہب کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا ہے۔ اس نے حزب المجاہدین سے الگ ہونے سے قبل اپنے ایک ویڈیو میں تحریک کشمیر کی حمایت کے لئے شیعوں کی تعریف کی تھی اگرچہ اس کے پیغام میں تکفیری بو محسوس کی جاتی ہے لیکن یہ سب سیاسی سطح پر ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ تنظیم سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر رہی ہے اب تک تحریک کشمیر میں اس بات کا فقدان تھا یہاں تک کہ ذاکر موسی ایک پیغام میں لوگوں سے اپیل کر رہا ہے کہ وہ ہندوستانی فوجیوں یا ان کے اہل خانہ کی موجودگی کی اطلاع انہیں دیں تاکہ ان کے خلاف کوئی اقدام کیا جا سکے۔

القاعدہ سے وابستہ تنظیم کے میڈیا سیل "الحر" کی تشکیل کے اعلان نے پاکستان کے ما تحت کشمیر میں بیٹھے حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو بیان جاری کرنے پر مجبور کر دیا۔ ہندوستان کے لئے نمبر ایک دہشت گرد کی حیثیت رکھنے والے صلاح الدین انصار غزوہ الہند کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کشمیر مسئلہ کو عالمی جہادی تنظیموں داعش اور القاعدہ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ان تحریکوں نے شام و عراق وغیرہ میں صرف اور صرف مسلمانوں کا خون بہایا ہے اور مسلمانوں کے واقعی دشمنوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔ ان تنظیموں کا اسلام، آزادی اور اتحاد پر مبنی کشمیری تحریک سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ صلاح الدین نے ذاکر موسی پر ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کی کٹھ پتلی ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ مجاہدین کے درمیان اختلاف اور انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اسی طرح گزشتہ روز حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک نے بیان جاری کرتے ہوئے تاکید کی کہ کشمیر میں داعش اور القاعدہ جیسی عالمی تنظیموں کیلئے جگہ نہیں ہے۔ اس بیان میں آیا ہے کہ القاعدہ اور داعش کے ہاتھ دنیا کے مختلف ممالک بالخصوص شام، عراق اور افغانستان میں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

ذاکر موسی اور انصارغزوۃ الہند کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات ہیں اور دوسری طرف جب عالمی سطح پر تکفیری تفکر پھل پھول رہا ہے تو کسی سازش کے احتمال کو بھی یقینی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس سے قطع نظر کہ انصار غزوۃ الہند کی پشت پر کون ہے جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ آنے والے دنوں میں کشمیر میں حزب المجاہدین، حریت کانفرنس اور انصار غزوۃ الہند کے درمیان اختلاف اور کشیدگی بڑھے گی اور ان حالات کا فائدہ ہندوستانی حکومت اٹھائے گی جو عالمی سطح پر کشمیر میں دہشت گردی کے عنوان سے اسے پیش کرے گی۔ دوسری طرف مخالفین میں اختلاف اور انتشار کے سبب کشمیر مسئلہ میں اس کا موقف اور شدید ہوگا۔

اس سے خطرناک حالات تب ہونگے جب افغانستان اور عراق جیسے شرائط کے تحت کشمیری شیعوں پر بھارتی حکومت کے خلاف خاموشی اختیار کرنے کے الزامات لگیں گے اور وہ ان تنظیموں کے مظالم کا نشانہ بنیں گے۔

ایسی حالت میں ان واقعات کو روکنے کے لئے شیعوں کو کشمیری عوام پر ظلم کرنے والی بھارتی حکومت کی نہیں بلکہ تعصب اور شدت پسندی کا شکار ہونے والی کشمیر کی آزادی تحریک کی ہمراہی کرنا ہے، وہ بھی ایسا تعصب اور ایسی شدت پسندی جو کبھی بھی کشمیر میں آگ لگا سکتی ہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری