سعودی عرب کا عراق سے ثالثی کی درخواست اور پھر انکار کے اسباب

سعودی عرب کا عراق سے ثالثی کی درخواست اور پھر انکار کے اسباب

سعودی عرب نے ریاض اور تہران کے درمیان عراق سے ثالثی کی اپنی ہی درخواست سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم ایران کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات کے خواہاں نہیں ہیں"۔

تسنیم خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق "رای الیوم" نامی عربی روزنامے میں سیاسی امور کے تجزیہ کار عطوان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا ایران کے ساتھ تعلقات کی بہتری کیلئے عراق سے کی گئی ثالثی کی درخواست سے انکار بالکل غیر متوقع تھا جس کے سبب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کی امید کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔

روزنامہ رای الیوم کے ایڈیٹر عبدالباری عطوان کا کہنا ہے کہ سعودی حکام کی طرف سے  عراق سے ثالثی کی درخواست سے انکار بالکل غیر متوقع اور مشکوک ہے۔

عطوان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے موقف میں اچانک تبدیلی تمام ذی شعور انسانوں کے ذھن میں مختلف قسم کے سوالات جنم دینے کا سبب بنی ہے۔

ریاض غضبناک کیوں ہے؟ اور کس چیز سے خائف ہے؟

سعودی حکام نے ایران کے ساتھ تعلقات کی بہتری کیلئے عراق کی ثالثی کو کیوں رد کیا اور اس حوالے سے اتنا شدید لہجہ کیوں اپنایا ؟

حالانکہ انہی ایام میں سعودی حکام نے عراق کے شیعہ رہنماوں کہ جن کے ایران کے ساتھ نہایت قریبی تعلقات ہیں، کی میزبانی کی اور ان سے درخواست کی کہ تہران اور ریاض کے تعلقات میں سرد مہری کو ختم کروانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں، اب اچانک سعودی حکام کو کیا ہوگیا؟ کیوں اتنی جلدی اپنے موقف سے دستبردار ہوگئے؟

عطوان کا کہنا ہے کہ ان سوالوں کے جواب دینے سے پہلے ضروری ہے کہ تہران ریاض تعلقات پر ایک نظر ڈالی جائے، حالیہ مہینوں میں ریاض کے بدلتے رخ سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی حکام تہران سے تعلقات کے خواہاں تھے جس کی وجہ سے بہت سارے اقدامات ایسے کئے گئے جن سے معلوم ہوتا ہےکہ ریاض نے عراق سے ثالثی کی درخواست کی ہے۔

1۔ سعودی حکام کی طرف سے ایرانی حجاج پر عائد پابندی کو ہٹانا

سعودی حکام نے حج کے بارے میں تمام ایرانی مطالبات کا ماننا اور ایرانی حجاج کے پہلے کارروان کی استقبال کے لئے سعودی وزیر کا ایئرپورٹ جانا

2۔ سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ کا استنبول اجلاس میں مصافحہ کرنا

3۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے باوجود سعودی عرب کی طرف سے 10 ایرانی سفارتکاروں کو تین اہم شہروں میں تعیناتی کی اجازت دینا

4۔ سعودی عرب کی عراق کے ساتھ ملحقہ عرعر سرحد کو 20 سال بعد کھولنا

5۔ جولائی کے مہینے میں بغداد میں سعودی عرب کے سابق سفیر تامر السبھان کا امام خمینی پر سخت تنقید اور 24 گھنٹے کے اندر اندر اپنا بیان واپس لے کر ٹوئٹر سے ہٹانا ۔۔۔ واضح رہے کہ السبھان کو عراق نے ناپسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کیا تھا۔

6۔ مقتدا الصدر کا حالیہ سعودی دورہ اور عراق کے مقدس شہر نجف اشرف میں سعودی قونصلیٹ کھولنے کا اعلان کرنا

ان تمام اقدامات کے باوجود اچانک سعودی رویے میں تبدیلی کیسے اور کیوں آئی ؟

سعودی عرب کے حالیہ بیان نے ان تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری اور یمن جنگ کے خاتمے کے علاوہ بحرین میں سیاسی صورتحال بہتر ہوتے دیکھائی دے رہی تھیں۔

اصل بات یہ ہے کہ سعودی حکام ثالثی کی درخواست کو راز میں رکھنا چاہتے تھے جبکہ عراقی وزیر اعظم اور قاسم الاعرجی کی طرف سے اعلان پر دنیا کو ایسا لگا کہ اب سعودی عرب کمزور ہوکر ہار مان گیا ہے جس کی وجہ سے سعودی حکام بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔

لندن سے شائع ہونے والے اخبار رای الیوم کے چیف ایڈیٹر عبد الباری عطوان کا کہنا ہے کہ عراقی حکام نے سعودی حکام کی طرف سے ثالثی کی درخواست کو راز میں اسلئے نہیں رکھا کیونکہ ایران کو عراق اور سعودی عرب کے قریب ہوتے ہوئے تعلقات پر سخت تشویش تھی جس کی وجہ سے عراقی حکام نے مناسب سمجھا کہ اس راز کو برملا کیا جائے تاکہ ایران کی تشویش کا ازالہ ہوسکے۔

چیف ایڈیٹر عبد الباری عطوان نے سعودی حکام کے موقف میں تبدیلی کے اسباب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کسی بھی صورت میں سعودی عرب اور ایران کو ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا عین ممکن ہے کہ واشنگٹن نے ریاض پر دباو ڈالا ہو کہ وہ اپنے موقف میں تبدیلی لائے اور ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے سے اجتناب کرے۔

سعودی عرب کے موقف میں اچانک تبدیلی اور ثالثی کی درخواست کی تردید کی وجہ سے عراقی حکام کو بھی شدید دھچکا لگا ہے جو اب عراق اور سعودی عرب کے درمیان بہتر ہوتے ہوئے تعلقات پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔

ایڈیٹر عبد الباری عطوان نے مزید لکھا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات مزید خرابی کی طرف جارہے ہیں امید ہےکہ یہ تلخیاں حج کے مراسم پر اثراندز نہ ہو۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری