سانحہ ماڈل ٹاؤن کی باقر نجفی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا حکم جاری


سانحہ ماڈل ٹاؤن کی باقر نجفی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا حکم جاری

لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا حکم جاری کردیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق قیصر اقبال سمیت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دیگر متاثرین کی جانب سے دائر کردہ تحقیقاتی رپورٹ سامنے لانے کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے یہ حکم جاری کیا۔

ڈان نیوز نے خبر دی ہے کہ عدالت نے رپورٹ شائع کرنے کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے سیکریٹری داخلہ پنجاب کو حکم دیا کہ اس رپورٹ کو فوری طور پر ریلیز کیا جائے۔

یاد رہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے درخواست کی گذشتہ سماعت پر اپنے دلائل میں کہا تھا کہ یہ اہم نوعیت کا معاملہ ہے اس کو منظر عام پر آنا چاہیے، اس رپورٹ کا تعلق براہ راست عوام سے ہے اور رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے آئندہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

ایڈووکیٹ بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا تھا کہ پنجاب ٹرانسپرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت معلومات حاصل کرنا ہر شہری کا حق ہے، معلومات تک رسائی کا قانون پنجاب حکومت نے خود بنایا ہے، جبکہ مجوزہ قانون میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ عوام کو صرف وہ معلومات نہیں دی جا سکتی جس سے ملکی مفاد کو خطرہ لاحق ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں نہ تو ملکی مفاد کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی پاکستان کی سالمیت سے اس کا کوئی تعلق ہے لہذا عدالت سانحہ ماڈل ٹاون کے عدالتی ٹریبونل کی رپورٹ متاثرین کو فراہم کرنےاور منظر عام پر لانے کے احکامات صادر کرے۔

دوسری جانب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ پنجاب حکومت کے عدالتی ٹریبونل کے نوٹیفکیشن میں کہیں نہیں لکھا کہ اس رپورٹ سے عوام کا کوئی تعلق ہے، سانحہ ماڈل ٹاون سے متعلق درخواستیں لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کے روبرو زیر التوا ہیں لہذا اس کیس کو بھی دیگر کیسز کی طرح فل بنچ میں جانا چاہیے۔

ایڈووکیٹ جنرل کے مطابق اس کیس کا جوڈیشل رپورٹ سے کوئی تعلق نہیں، باقی تمام کیسز ہائی کورٹ کےفل بنچ نے سنے ہیں جن پر ابھی سماعت مکمل نہیں ہوئی۔

سر کاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ رپورٹ پنجاب حکومت کے خلاف ہے، حکومت متعدد بار کہہ چکی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون رپورٹ عوام کے لیے نہیں۔

وکلا کے یہ دلائل سننے کے بعد عدالت نے 19 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ سانحہ ماڈل ٹاون میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کر دی تھی جسے منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

رواں سال اگست میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کی 'درخواست' کرنے کے لیے مال روڈ پر دھرنے کا اعلان کیا تھا۔

واضح رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستانی عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا، مگر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے باعث 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری