نواز شریف کے پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار


نواز شریف کے پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار

سینیٹ نے انتخابی اصلاحاتی بل 2017 کی منظوری دے دی جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز کے سابق صدر و سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد ایک مرتبہ پھر پارٹی کے صدر بننے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق انتخابی اصلاحاتی بل 2017 قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اعتزاز احسن نے ترمیم پیش کی کہ جو شخص اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا جس کے بعد بل پر ووٹنگ ہوئی۔

حکومت نے محض ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن بل کی شق 203 میں ترمیم مسترد کرانے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار کردی۔

بل کی منظوری میں اپوزیشن جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل (بی این پی-ایم) نے اہم کردار ادا کیا اور ووٹنگ کے عمل میں اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیا۔

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے انتخابی اصلاحاتی بل میں کسی بھی نااہل شخص کے سیاسی جماعت کے عہدیدار بننے سے بھی نااہلی کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں تھی اسی لیے پی پی پی کے سینیٹر نے ترمیم پیش کی تھی۔

انتخابی اصلاحاتی بل کی شق 203 میں کہا گیا ہے کہ ہر پاکستانی شہری کسی بھی سیاسی جماعت کی رکنیت حاصل کرسکتا ہے۔

سیاسی جماعت کی رکنیت کے حوالے سے بل کے نکات یہ ہیں۔

1-ہر وہ شہری جو سرکاری ملازمت کا عہدہ نہیں رکھتا ہو وہ ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ سکتا ہے، دوسری صورت میں ایک سیاسی جماعت سے منسلک ہو سکے گا، سیاسی سرگرمیاں میں حصہ لے سکتا ہے اور ایک سیاسی جماعت کا عہدیدار بھی منتخب ہوسکتا ہے۔

2-جب ایک شہری سیاسی جماعت میں شمولیت کرے گا تو اس کا نام بطوررکن سیاسی جماعت کے ریکارڈ میں درج کیا جائے گا اور رکنیت کا کارڈ یا دیگر دستاویزات بھی جاری کی جائیں گی جس سے سیاسی جماعت کی رکنیت ظاہر ہوتی ہو۔

3-کوئی بھی شہری ایک وقت میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا رکن نہیں بن سکتا۔

4-سیاسی جماعت خواتن کو رکن بننے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔

5-سیاسی جماعت کا رکن پارٹی کے ریکارڈ تک رسائی کا حق رکھتا ہے ماسوائے دیگر اراکین کے ریکارڈ کے۔

یاد رہے کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر (پی پی او) 2002 میں درج تھا کہ ایسا کوئی شخص سیاسی جماعت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا جو رکن قومی اسمبلی نہیں یا پھر اسے آئین کے آرٹیکل 62-63 کے تحت نا اہل قرار دیا گیا ہو۔

انتخابی اصلاحاتی بل 2017 میں ترامیم کے لیے سینیٹ میں ہونے والی ووٹنگ میں اعتزاز احسن کی ترمیم کی حمایت میں 37 جبکہ مخالفت میں 38 ووٹ آئے جس پر وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے خوشی کا اظہار کیا۔

خیال رہے کہ سینیٹ سے ترامیم کے ساتھ منظوری کے بعد اب الیکشن بل 2017 کو دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جہاں سے اسی شکل میں منظوری دی گئی تو یہ نیا انتخابی قانون بن جائے گا جبکہ ترامیم کی صورت میں انتخابی اصلاحاتی بل 2017 کی منظوری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے لینا ہوگی۔

قبل ازیں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بل میں ترمیم پر ایوان کی رائے مختلف آنے پرموقف اپنایا کہ ان کی تجویز کے برعکس فیصلہ آنے پر وہ اخلاقی طور پر ایوان میں نہیں بیٹھنا چاہتے اس لیے ایوان سے ہی چلے گئے۔

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی ایوان میں وزرا کی عدم حاضری پر بھی برہم ہوئے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری