عمران خان نااہلی کیس؛ لندن فلیٹ کیلئے رقم کہاں سے آئی، سپریم کورٹ


عمران خان نااہلی کیس؛ لندن فلیٹ کیلئے رقم کہاں سے آئی، سپریم کورٹ

عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف الیکشن کمیشن میں اثاثے اور آف شور کمپنیاں ظاہر نہ کرنے سمیت بیرون ملک سے حاصل ہونے والے مبینہ فنڈز سے پارٹی چلانے کے الزامات پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف نااہلی کیس کی سماعت کے دوران 3 رکنی بنچ نے ریمارکس دیے کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے لندن فلیٹ کے لیے رقم کہاں سے آئی۔

خیال رہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف الیکشن کمیشن (ای سی پی) میں اثاثے اور آف شور کمپنیاں ظاہر نہ کرنے سمیت بیرون ملک سے حاصل ہونے والے مبینہ فنڈز سے پارٹی چلانے کے الزامات پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ لندن فلیٹ کے لیے رقم کہاں سے آئی۔

اس سے قبل حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے عمران خان کی جانب سے بنی گالہ کی جائیداد سے متعلق فنڈز کی منتقلی کی عدالت میں پیش کی جانے والی دستاویزات کی معیاد پر سوال اٹھائے۔

واضح رہے کہ مذکورہ کیس کی 28 ستمبر کو ہونے والی گذشتہ سماعت میں عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے بنی گالہ جائیداد میں منی ٹریل سے متعلق سپریم کورٹ کے سوالات کے جواب دیئے تھے۔

عدالت کی جانب سے دستاویز کے مطالبے پر عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے پی ٹی آئی چیئرمین کی سابق اہلیہ جمائما کی جانب سے لکھا گیا خط سپریم کورٹ میں پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’جمائما نے یہ خط بذریعہ ای میل روانہ کیا ہے‘۔

نعیم بخاری کے مطابق خط میں جمائما کا کہنا تھا کہ ان کا ای میل ایڈریس سپریم کورٹ میں پیش نہ کیا جائے اور انہوں نے خط میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عمران خان نے 5 لاکھ 62 ہزار پاونڈ کی رقم انہیں واپس کی۔

تاہم منگل (3 اکتوبر) کے روز کیس کی سماعت کے دوران حنیف عباسی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نعیم بخاری کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کے ایڈریس مماثلت نہیں رکھتے، لہذا یہ مصدقہ نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر دستاویزات مصدقہ نہیں ہیں، تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘، انہوں نے کہا کہ آیا عدالت کے پاس اصل دستاویزات منگوانے کا آپشن موجود ہے۔

اکرم شیخ نے 79 ہزار پاؤنڈ پر سوال بھی اٹھایا جو ان کے مطابق عمران خان نے بنی گالہ کی جائیداد کے لیے ادا کیے تھے۔

انہوں نے کہا، ’کیا ہمیں یہ نہیں بتائیں گے کہ یہ رقم کہاں سے آئی؟‘، ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کے وکیل نے اس معاملے سے متعلق دستاویزات جمع نہیں کرائیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ عمران خان نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ نہیں کیا گیا، ’میڈیا یہ تاثر نہ دے کہ فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ نئی دستاویزات بھی منگوائی گئی ہیں ان کو بھی دیکھنا ہے۔

سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ میڈیا کہتا ہے کہ عمران خان نااہلی کیس کی 38 سماعتیں ہو چکی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'ہم مقدمے کو آدھا دن سنتے ہیں، باقی مقدمات بھی دیکھنے ہوتے ہیں'۔

حنیف عباسی کے وکیل کا کہنا تھا کہ 'عمران خان نے اثاثوں کی تفصیلات وہاں ظاہر کیں جہاں ان کا دل چاہا، پاناما کیس اور عمران کا کیس دونوں یکساں نوعیت کے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ شریف خاندان کہ بددیانتی کا معاملہ ابھی احتساب عدالتوں میں زیر سماعت ہے جبکہ تنخواہ نہ لینا یا اثاثے ظاہر نہ کرنا بددیانتی نہیں ہوتی۔

جس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ 'پاناما لیکس کا فیصلہ 5 رکنی بینچ نے متفقہ طور پر دیا جبکہ پاناما فیصلے میں 5 ججز کی الگ الگ رائے بھی موجود ہے، اسے بھی دیکھنا چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف کھوسہ کا نوٹ بھی ہے اور اسے بھی دیکھنا چاہیے۔

اس موقع پر حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ فیصلہ آرڈر آف دی کورٹ ہوتا ہے رائے نہیں۔

اکرم شیخ نے کہا کہ 'عمران خان نے پہلے آف شور کمپنی بنائی، پھر انہوں ںے بیوی کے پیچھے چھپ کر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہونے کی کوشش کی'۔

حنیف عباسی کے وکیل نے پاناما فیصلے کو اپنے دفاع میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا سپریم کورٹ ایک طرح کی نوعیت کے مقدمے میں دو مختلف فیصلے کرے گی‘۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ فرض کر لینا کہ عمران خان فرشتہ ہے درست نہیں'، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'ہمیں عمران خان کا بیوی سے قرض لینے اور واپس کرنے میں کوئی بد نیتی اور فراڈ نظر نہیں آتا'۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کاغذات نامزدگی میں اثاثے ظاہر نہ کرنے کا معاملہ پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن ہو چکی۔

جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ 2013 میں عمران خان کی آف شور کمپنی نیازی سروسز لمیٹڈ ظاہر نہیں کی گئی تھیں۔

سپریم کورٹ نے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عمران خان اور جہانگیر ترین کی آف شور کمپنیوں کے خلاف کیس کی سماعت بدھ (4 اکتوبر) ساڑھے 11 بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری