کیا روس نے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی جگہ لے لی ہے ؟


کیا روس نے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی جگہ لے لی ہے ؟

روس کی شام میں کامیاب فوجی کاروائی، علاقائی سیاست اور ماسکو کے دو طرفہ مفادات پر مبنی رویہ باعث بنا کہ وہ اپنے آپ کو مشرق وسطیٰ میں اور زیادہ مستحکم کرے اور خطے کے ممالک سے اپنے قابل اعتماد روابط بہتر کرے۔

خبر رساں ادارے تسنیم نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کےحوالے سے خبر دی ہے کہ "نووسٹی" نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ سوموار کے روز سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کا سرکاری دورہ اختتام پذیرہوا اور پہلے مرحلے میں دونوں ملکوں کے درمیان دس سال کی سرد مہری بھی ختم ہوئی اور تقریبا دس سال قبل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سعودی عرب کے سرکاری دورے پر 2007 میں گئے اور اب سعودی شاہ روس کے دورے پر گئے۔

دوسری طرف یہ دورہ بہت طویل تھا، اس سے روس اور سعودی عرب کے درمیان اعتماد میں اضافہ ہوا جو روس کو مشرق وسطی میں لانے کی تیاری کا حصہ بھی تھا البتہ روس نے ایسے موقع کو پانے کے لیے کوششیں کافی پہلے سے شروع کر رکھی تھیں اور 2010 میں خاص قسم کے رابطے ہوئے لیکن اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی اور خصوصا امریکہ اور اس کے اتحادیوں سعودی عرب، اسرائیل، قطر اور امارات کا مشرق وسطی پر مکمل اثر و رسوخ ہونے کی وجہ سے کسی اور کے لیے جگہ بنانا ناممکن تھا اور جس اثر و رسوخ کا نتیجہ علاقے میں متعدد خونین جنگوں کی صورت میں نکلا اور بغیر کسی تردید کے مضبوط اور مصمم مستقبل کے ایجنڈے نے خطے کی صورت حال کو نہ صرف مکمل تبدیل کر دیا بلکہ اس کو اور زیادہ مستحکم کر دیا اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دائرے کو وسیع کیا اور خطے کے مزید ممالک کو جذب کیا اور وہ روس کا شام میں فوجی کارروائی کا آغاز تھا۔

باوجود اس کے کہ ابتدا میں کامیابی کی کوئی امید نہیں تھی یہاں تک کہ اس کو ابتدا میں سب خطرناک سمجھ رہے تھے، جغرافیائی اور اصولی تبدیلیاں مشرق وسطیٰ میں آئیں اور خطے بلکہ دنیا کے طاقتی توازن کو تبدیل کر دیا۔ ماسکو نے اس اقدام سے نہ صرف بشار اسد اور دمشق کے دوسرے حکام کو نجات دلوایا بلکہ خطے کی دوسری طاقتوں کو بھی موقع فراہم کیا اور اب روس داعش کے ساتھ  جنگ کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور جلد شام کو داعش کے قبضے سے آزاد کرا لے گا۔

کچھ عرصہ قبل کوئی داعش کی شکست  پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا البتہ اس فوجی کامیابی کے علاوہ گزشتہ دو سال کے دوران قابل توجہ سیاسی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں جو اس سے پہلے ناممکن نظر آرہی تھیں۔

ماسکو نے تہران اور انقرہ کے ساتھ مل کر علاقے میں سلامتی کے کام کا آغاز کیا ہے اور خود یہ تین ملکی اتحاد ان کے سابقہ اختلافات پر مبنی روابط کو دیکھتے ہوئے خطے کے لیے بہت اہم اور ایک منفرد کامیابی ہے۔ روس اور ترکی تو ایک دوسرے سے ہاتھاپا ہونے یہاں تک کہ ایک وقت جنگ کے لیے بھی تیار تھے، یہ اتحاد نہ صرف ایران کے ساتھ مل کر شام میں امن و صلح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے بلکہ گیس پائپ لائن بچھانے اور میزائل سسٹم "ایس 400" کی خرید و فروخت کی قرارداد پر دستخط بھی کیے ہیں اور اب کہا جا سکتاہے کہ مشرق وسطیٰ میں روس کا کردار ہر حوالے سے موثر ہے اور قبول کرنا چاہئے کہ یہ صرف سوچ نہیں ہے بلکہ اس کی ایک دلیل اور بنیاد بھی ہے۔

یہ روس ہی تھا جس کو امید تھی کہ ابھی امکان ہے کہ عراق اور لیبیا جس خونریز تباہی کے راستے پر ہیں، مغربی مداخلت کی وجہ سے یہ خونریزی رکے اور یہ ممالک دوبارہ امن و سلامتی کو دیکھ پائیں اور اسی دلیل کی بنا پر ان ممالک کے سربراہوں نے اپنا سرمایہ اور اپنے مفادات کو روس کی خدمت میں حاضر کیں اور اپنے معدنی ذخائر نکالنے اور اہم انفراسٹکچر میں روس کے ساتھ کام شروع کیا۔

یہاں تک کے امریکہ کے اتحادی بھی روس کی طرف آ رہے ہیں۔ قطر کے روس ک ساتھ نفرت پر مبنی تعلقات جو زیادہ تاریخی داستانوں کا موضوع بھی رہے ہیں، حالیہ چند سالوں میں مکمل تبدیل ہوئے ہیں اور گزشتہ اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دونوں ممالک قابل اعتماد تعلقات کو بڑھا رہے ہیں اس ضمن میں دوحہ کے حکام کو اپنے عرب ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعقات میں بحران آنے کے بعد خود خلیج فارس میں ماسکو کی حمایت کی ضرورت تھی اور روسی حکام نے اس بحران میں براہ راست قطر کی حمایت کی۔

روسی حکام نے مشرق وسطی میں سخت صورتحال کے باوجود بارہا اپنے علاقائی رویے، مضبوط ارادے اور سیاست کو مستقل طور پر واضح پیش کیا ہے اور شام کے ساتھ اتحاد میں پائداری کہ جس کا مخالفین بھی اس اتحاد کا احترام کرتے ہیں، بالکل واشنگٹن کے برخلاف جو آسانی سے اپنے اتحادیوں کو چھوڑ دیتا ہے اور نہ ہی اپنے کسی قول اور معاہدے کی پاسداری کرتا ہے۔ اپنے اتحادیوں کو تنھا چھوڑ دیتا ہے جبکہ ماسکو اپنے قول و فعل اور معاہدوں کا  پابند اور تنھا نہ چھوڑنے والا اتحادی ہے اور یہ مسئلہ ہر روز گزرنے کےساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے سامنے روز روشن کی طرح واضح ہوتا جا رہا ہے اور بلا شک و شبہ کے یہ ہی سیاست وجہ بنی کہ مغرب کے بعض معتبر خبر رساں اداروں نے اعتراف کیا ہے کہ روس نے بانفوذ ترین طاقت کے طور پر امریکہ کی جگہ لے لی ہے اور یہ تعجب کی جگہ نہیں ہے کہ ایک بڑے اور امیر ملک اور امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں سب سے قریبی اتحادی نے روس کے ساتھ اچھے روابط بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

اس سے پہلے ماسکو کے دوحہ اور ریاض کے ساتھ بدترین تعلقات شام میں روسی فوجی کارروائی کے بعد اور زیادہ بگڑ گئے اور عرب حکام روس پر شام میں مداخلت کے الزامات اور مسلسل ماسکو کے اقدامات پر تنقید کرتے رہے۔

روسی فوجی کارروائی کے نتیجے میں واضحہ ہوا ہے کہ تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال اور دو ملکوں کے شام اور ایران سے متعلق اختلافات کے باوجود شروع ہوتے ہی بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں جس میں مشترکہ سرمایہ کاری سے لیکر ایٹمی پلانٹ کی تعمیر، تیل میں اشتراک یہاں تک کہ اسٹریٹجل اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کام کرنے پر متفق ہو گئے ہیں۔

روس نے بین الاقوامی طور پر اپنا لوہا منوالیا ہے کہ امریکہ صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے جبکہ روس کے تعلقات دو طرفہ مفادات پر مبنی ہیں اور اس وقت دنیا میں ایک ملک کی حاکمیت اور اسی کے اشاروں پر ناچنے کا دور ختم ہو رہا ہے، روس کے حالیہ سالوں میں اقدامات سے واضح ہوا ہے کہ سیاست فریقین کے مشترکہ مفادات پر مبنی ہونی چاہئے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری