امریکی وزیر خارجہ کا دورہ، پاکستان نو ڈو مور کا پیغام دےگا


امریکی وزیر خارجہ کا دورہ، پاکستان نو ڈو مور کا پیغام دےگا

پاکستان نے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے دورے کے دوران ’’نو ڈو مور‘‘ کا دوٹوک پیغام دینے کا فیصلہ کرلیا۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے دورہ پاکستان کے لیے حکومت نے حکمت عملی تیار کرلی ہے جس کے مطابق پاکستان امریکی حکام کو واضح پیغام دے گا کہ امریکا اور افغانستان ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مربوط کارروائیاں کریں جو افغان سرزمین پر بیٹھ کر پاکستان میں  دہشت گردی کرانے میں  ملوث ہیں۔

پاکستان نے  امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مزید تعاون  کے حوالے سے اپنی حکمت عملی  مرتب کرلی ہے جس کے تحت پاکستان امریکا کے ساتھ  “مشترکہ انٹیلی جنس  شیئر نگ کے نظام کو مربوط بنانے  کے حوالے سے” اپنی قومی سلامتی کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے” تعاون کرے گا۔

پاکستان کی حدود میں  صرف پاک  فوج اور سیکورٹی ادارے ہی کارروائیاں کریں گے اور امریکا کے ساتھ کوئی مشترکہ آپریشن  نہیں  کیا جائے گا اور نہ ہی امریکا  یا افغانستان  سمیت کسی بھی ملک کو پاکستانی حدود  میں  کسی آپریشن کی اجازت دی جائے گی۔اس حکمت عملی کے حوالے سے وفاق کے حکام امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے رواں ماہ دورہ پاکستان کے موقع پر ملاقاتوں میں آگاہ کریں  گے۔

وفاق کے اہم ترین ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے حوالے سے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے۔ اعلی وفاق کی سطح  کے حلقوں  میں ہونے والی مشاورت میں  پاک امریکا تعلقات میں  آنے والے تناؤ، افغانستان کےلیے نئی ٹرمپ پالیسی، دہشت گردی کے خاتمے کےلیے مزید تعاون، افغان مفاہمتی عمل میں  پاکستان کا کردار، بھارت کے افغانستان میں  کردار پر پاکستان کے تحفظات، پاکستان اور امریکا کے درمیان مختلف شعبوں  میں تعاون کو وسعت دینے سمیت دیگر معاملات پرامریکی وزیر خارجہ سے ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے غور کیا گیا ہے۔

وفاقی ذرائع نے بتایا کہ پاکستان  نے امریکا کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے  پالیسی طے کرلی ہے۔ اس پالیسی کا واضح ایجنڈا ایک ہی ہے نوڈومور اور برابری  کی سطح پر تعلقات، اس ہی پالیسی  کے تحت پاکستان کی جانب سے  امریکا کے ساتھ مذاکراتی ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام امریکی وزیر خارجہ کے دورے کے موقع پر دہشت گردی کے خاتمے کےلیے مزید تعاون  کے حوالے سے اپنی حکمت عملی واضح کریں گے۔ پاکستان امریکا کے ساتھ صرف  انٹیلی جنس  شیئر نگ  میں  مشترکہ تعاون کو وسعت دے گا۔ پاکستان کی جانب سے امریکا کے ساتھ مشترکہ  طور پرکوئی فوجی آپریشن نہیں  کیا جائے گا۔

پاکستان امریکی حکام کو واضح کرے گا کہ اگر اس کے پاس پاکستان کی حدود میں کسی دہشت گرد تنظیم کے حوالے سے کوئی اطلاع ہے تو اس حوالے سے ٹھوس معلومات کا تبادلہ کیا جائے۔پاکستان ان معلومات کی روشنی میں  ازخود کارروائی کرے گا۔

پاکستان امریکی حکام پر واضح کرے گا  کہ امریکا اور افغانستان ان دہشت گرد تنظیموں  کے خلاف بھی مربوط کارروائیوں  کومزید  تیز کریں جو افغان سرزمین پر بیٹھ کر پاکستان میں  دہشت گرد ی کرانے میں  بلاواسطہ یا بلواسطہ ملوث ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر امریکی حکام نے اپنا ماضی کا یہ مطالبہ دوہرایا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گروں کی پناہ گاہوں  یا نیٹ ورک کو ختم کرے تو پھر پاکستان کا واضح جواب ہوگا کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردوں  کی کوئی پناہ گاہ یا نیٹ ورک نہیں  ہے۔

وفاق  ٹرمپ حکام کوواضح  کرے گا کہ اس معاملہ پر مطالبہ نہیں  کیا جائے بلکہ امریکا  ٹھوس معلومات یا مقامات کی نشاندہی کرے۔ پاکستان فورا اس معاملے پر ایکشن لے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے دورے کے موقع پر افغانستان میں  قیام امن کے لیے “مفاہمتی عمل ” پر بھی گفتگو کی جائے گی، اس معاملے پر 4 ملکی رابطہ کار گروپ کو مزید فعال کرنے اور مفاہمتی عمل کےلیے مربوط حکمت عملی پر مشاورت ہوگی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر امریکی حکام نے ممکنہ طور پر سی پیک اور افغانستان میں  بھارت کے کردار پر کوئی بات کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کا واضح جواب ہوگا کہ “افغان مفاہمتی عمل میں  بھارت کا کردار پاکستان کو قابل قبول نہیں  ہے جب کہ سی پیک پر امریکا یا بھارت کے کسی تحفظات کو قبول نہیں  کیا جائے گا۔ افغانستان کےلیے ٹرمپ حکومت اپنی پالیسی کو تبدیل کرے گی تو پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کےلیے تعاون پر تیار ہے۔ امریکی حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ صرف زبانی نہیں  بلکہ عملی سطح پر مربوط حکمت عملی کے تحت تعاون کرے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرمپ حکام  کے پاکستان کے ساتھ اعلیٰ سطح پر سفارتی رابطوں  میں  فی الحال اس بات کے اشارے دیے گئے ہیں کہ امریکا افغانستان کےلیے اپنی پالیسی پر پاکستان کے تحفظات کو مذاکرات کے ذریعے دور کرے گا۔

سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان انتہائی اہم ہے، اس دورے سے ٹرمپ حکومت کی پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے مستقبل کی پالیسی واضح ہوگی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان بھی طے کرچکا ہے کہ اگر امریکی حکومت نے متوازن تعلقات کی پالیسی اختیار نہ کی تو وفاق ٹرمپ حکومت کے ساتھ تمام سطح کے تعلقات میں  تعاون کی پالیسی پر نظر ثانی کرسکتا ہے۔

وفاقی حکومت امریکا کے ساتھ تعاون کے حوالے سے مزید حکمت عملی  اپنی قومی سلامتی کی پالیسی کومدنظر رکھتے ہوئے اختیار کرے گا ۔وفاقی حکومت آئندہ کےلیے ٹرمپ حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کی حکمت عملی کا تعین  قومی سلامتی کمیٹی  کی مشاورت سے طے کرے گی۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری