ٹیلرسن کا دورہ اسلام آباد اور کشیدہ تعلقات میں بہتری کیلئے دوطرفہ کوششیں


ٹیلرسن کا دورہ اسلام آباد اور کشیدہ تعلقات میں بہتری کیلئے دوطرفہ کوششیں

امریکی وزیر خارجہ نے ایسے وقت میں تعلقات کی بہتری کیلئے اسلام آباد کا دورہ کیا ہے کہ اس ملک کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے بعد پاکستان پر کی جانے والی تنقید سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔

خبر رساں اداسرے تسنیم کے مطابق تاہم، اس دورے کے دوران بھی دونوں فریقین کا مؤقف ماضی سے کچھ مختلف نہ رہا اور ریکس ٹلرسن نے ایک مرتبہ پھر قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کو کمزور کرنے کے لیے اپنے اُسی مطالبے کو دوہرایا۔

سیکریٹری آف اسٹیٹ کے اس مختصر دورہِ اسلام آباد پر بات کرتے ہوئے افغان امور کے سینیئر تجزیہ نگار اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ بظاہر امریکی حکام کے پاکستان میں اس طرح کے دوروں سے لگتا ہے کہ امریکا، پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اگر ایسا ہوگا تو افغان طالبان کی تواقعات کم ہوجائیں جس سے وہ مذاکرات کی میز پر آسکتے ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ امریکی سیکریٹری ریکس ٹلرسن کے حالیہ دورے میں ہونے والی ملاقاتوں میں دونوں ممالک کے رہنما اپنی رائے پر ڈٹے رہے جبکہ پاکستان نے مسلسل اس بات سے انکار کیا کہ یہاں پر دہشت گردوں یا حقانی نیٹ ورک کے کوئی محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حالیہ ملاقاتوں سے بہتری کی ایک امید پیدا ہوئی ہے اور ساتھ ہی امریکی صدر کے افغان پالیسی کے بعد بیان سے جو تعلقات میں برف جمی تھی وہ بھی کچھ حد تک پگھلتی نظر آرہی ہے۔

اس سوال پر کہ کیا کرم ایجنسی میں پاک فوج کے اپریشن کے دوران کینیڈین خاندان کی بازیابی اور حالیہ امریکی ڈرون حملے اعتماد بحال کرنے کی ایک کوشش تھی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر اس کارروائی سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ اگر پاکستان اور امریکا مل کر کارروائی کریں گے تو اس سے دونوں کو فائدہ ہوسکتا ہے۔

خیال رہے کہ کینیڈین خاندان کی بازیابی پر تین قسم کے بیانات آئے، تاہم خود بازیاب ہونے والے جوڑے نے پاکستان کی جانب سے ہونے والی کوششوں کی تعریف کی۔

رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ 'یہ ممکن ہے کہ اغوا کار افغانستان سے انہیں پاکستان میں لے کر آرہے تھے یا پھر یہ کافی عرصہ پاکستان میں ہی تھے، لہذا مختلف بیانات سے ایک الجھن سی پیدا ہوئی ہے'۔

مزید پڑھیں: پاکستان خطے میں نہایت اہم ہے،امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس بارے میں اب تک یہی کہہ رہا ہے کہ انہیں حقانی نیٹ ورک نے پاکستان میں قید کر رکھا تھا، مگر پاکستان اس بات سے انکاری ہے اس لیے جو بھی مسئلہ سامنے آتا ہے پر اس طرح کے بیانات سے معاملات مزید خرابی کی طرف جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بھی پاکستان اور امریکا کی رائے مختلف رہی ہے اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جو دونوں میں اعتماد کو کم کرتی ہے۔

رحیم اللہ یوسف زئی نے مزید کہا کہ اگرچہ سخت بیانات کسی حد تک تناؤ کی صورتحال کو جنم دیتے ہیں، لیکن دونوں ہی ممالک چاہتے ہیں کہ تعلقات مکمل طور پر ختم نہ ہوں کیونکہ اکیلے رہ کر امریکا افغان میں اپنے مقصد کو پورا نہیں کرسکتا۔

خیال رہے کہ امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن گذشتہ روز مختصر دورے پر پاکستان پہنچے اور حکام سے ملاقات میں پاکستان کو خطے میں امن واستحکام اور مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے نہایت اہم قرار دے دیا۔

ریکس ٹلرسن نے اسلام آباد پہنچنے کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیرخارجہ خواجہ آصف اور مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہاں سے ملاقات کی۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان 'خطے میں امن واستحکام اور گہرے معاشی تعلقات کے مواقع پیدا کرنے کے ہمارے مشترکہ اہداف کےلیےنہایت اہم ہے'۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان 'خطے میں امن واستحکام اور گہرے معاشی تعلقات کے مواقع پیدا کرنے کے ہمارے مشترکہ اہداف کےلیےنہایت اہم ہے'۔

ریکس ٹلرسن، وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کی دعوت پر پاکستان کے دورے پہنچ گئے تھے۔

اس سے پہلے امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے بگرام ائر بیس پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا، جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے خطرے سے بچنے کے لیے اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے پاکستان سے طالبان کو کمزور کرنے کے لیے کچھ مخصوص درخواستیں کیں ہیں جن پر دورہ اسلام آباد کے دوران پاکستانی قیادت سے بات چیت کی جائے گی۔

یاد رہے کہ امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور تعلقات کی بحالی کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل تصور کیا جارہا ہے، جیسا کہ 21 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی افغان حکمت عملی کے اعلان کے دوران پاکستان پر کی جانے والی تنقید کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک مرتبہ پھر انتہائی نچلی سطح پر چلے گئے تھے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری