وانا میں امن کمیٹی کی آڑ میں طالبان گروہ کی واپسی کا انکشاف


وانا میں امن کمیٹی کی آڑ میں طالبان گروہ کی واپسی کا انکشاف

جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں امن کمیٹی کی آڑ میں طالبان کے ایک گروہ کی واپسی کا انکشاف ہوا ہے، جس نے علاقے میں ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی جبکہ ساتھ ہی خواتین کا اپنے خاندان کے مردوں کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کو بھی محدود کردیا گیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ وانا ٹاؤن میں نام نہاد امن کمیٹی کی جانب سے پمفلٹ کے ذریعے سخت ہدایات جاری کی گئی ہیں جس میں لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ ان ہدایات کی پاسداری کی جائے، جو بھی ان ہدایات کی خلاف ورزی کرے گا اس کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ڈان نیوز نے رپورٹ دی ہے کہ کمیٹی نے منشیات کے استعمال، موسیقی، شادیوں اور تہواروں کے موقع پر پیش کیے جانے والے روایتی رقص اتنڑ پر بھی پابندی لگادی ہے۔

کمیٹی کی ہدایت کے مطابق تہواروں میں ایسی سرگرمیاں جو غیر اخلاقی ہوں یا اسلامی احکامات کے خلاف ہوں ان کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

پمفلٹ کے مطابق خواتین کی گھر سے باہر نقل و حمل کو بھی محدود کردیا ہے، خواتین کو اپنے خاندان کے مرد، اپنے بھائی اور شوہر کے علاوہ بازاروں، کلینک یا پیروں کے پاس جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اطلاعات کے مطابق طالبان کے بااثر رہنما ملا محمد نذیر کا جانشین صلاح الدین عرف ایوبی کمیٹی کا سربراہ مقرر ہے۔

واضح رہے 2013 میں جنوبی وزیرستان کے علاقے برمل میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں ملا نذیر اپنے 10 ساتھیوں کے ساتھ ہلاک ہو گیا تھا۔

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان 2003 میں طالبانائزیشن کا گڑھ تھا جس نے خیبرپختونخوا، فاٹا اور دیگر قبائلی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، طالبان کےمختلف گروہ کے مقامی رہنماؤں نے اپنے علاقوں میں متوازی انتظامیہ قائم کرلی تھی۔

نیک محمد کو ان گروہوں کا سربراہ بنایا گیا تھا، جبکہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے طالبان کو ختم کرنے اور ریاست کی رٹ بحال کرنے کے لیے ان علاقوں میں متعدد بار آپریشن کیا گیا، بالاخر شکی میں نیک محمد نے حکومت سے امن مذاکرات کرلیے تھے۔

بعد ازاں 2004 میں ایک میزائل حملے میں نیک محمد مارا گیا تھا۔

پمفلٹ میں کہا گیا ہے کہ رات 10 بجے کے بعد رہائشیوں کو گھر سے باہر عوامی مقامات پر رکنے کی اجازت نہیں ہوگی، یہ اقدام علاقے میں خرابی اور شور سے بچاؤ کے لیے اٹھایا گیا۔

امن کمیٹی کی جانب سے جاری ہونے والے اس کتابچہ میں دعویٰ کیا گیا کہ بزرگ اور کارکوٹ، گوا کھوا، شہین وارسا، دوگ، ڈب کوٹ، زاری نور اور شرنہ کے علماء ان اقدامات کے لیے راضی ہیں۔

اسی حوالے سے مقامی عالم امیر عین اللہ کی سربراہی میں بزرگوں اور علماء کی ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو ضابطہ اخلاق کا نفاذ اور ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والوں کی نشاندہی کرے گی۔

اس بارے میں پشاور میں موجود فاٹا کے امن و امان کے سیکریٹری حسن محمود یوسف زئی سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے وانا میں امن کمیٹی کی سرگرمیوں پر لاعلمی کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس اس قسم کی کوئی اطلاع نہیں، سیاسی ایجنٹ اس معاملے پر بہتر بتا سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ سیاسی ایجنٹ ظفر اسلام اور انتظامیہ کے دیگر حکام اس معاملے پر تبصرہ کرنے کے لیے موجود نہیں تھے۔

حالیہ نقل مکانی

دریں اثناء فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اس بات کی تصدیق کی کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے شکتوئی سے حالیہ دنوں میں مقامی لوگوں نے نقل مکانی کی۔

یہ نقل مکانی اس وقت ہوئی جب انتظامیہ کی جانب سے بے گھر افراد( آئی ڈی پیز) کو فاٹا میں دوبارہ ان کے گھر بھیجنے کی تیاری کی جارہی تھی۔

واضح رہے کہ شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجنسی کے تقریباً 17 ہزار بے گھر افراد اپنے گھروں کو واپسی کے منتظر ہیں۔

اس حوالے سے پشاور میں انتظامیہ کے اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ شکتوئی علاقے سے تعلق رکھنے والے محسود قبیلے کے 208 خاندان بے گھر ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ ان خاندانوں کا انخلا اس وقت ہوا جب شمالی وزیرستان کے قریب علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن کیا گیا تھا۔

اہلکار نے بتایا کہ بے گھر ہونے والے افراد بنوں کے علاقے میں باکاخیل کیمپ میں موجود ہیں جنہیں وہاں پکے ہوئے کھانے سمیت تمام بنیادی ضروریات فراہم کی جارہی۔

ان کا کہنا تھا کہ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کے بعد شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کے لیے بنائے گئے کیمپ کا انتظام فوج دیکھتی ہے۔

اہلکار نے بتایا کہ حالیہ نقل مکانی کرنے والے خاندان جلد اپنے گھروں کو دوبارہ لوٹیں گے، تاہم انہوں نے کوئی حتمی تاریخ دینے سے گریز کیا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری