کیا امت مسلمہ اور عرب دنیا کے لئے اصل خطرہ ایران ہے ؟؟؟


کیا امت مسلمہ اور عرب دنیا کے لئے اصل خطرہ ایران ہے ؟؟؟

سرزمین حجاز پر سب سے پہلا قتل عام 1745ء میں تکفیری وہابی مکتبہ فکر کے بانی محمد بن عبد الوہاب نے کیا کہ جس میں 17000 عرب سنی مسلمان قتل کئے گئے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: سرزمین حجاز پر سب سے پہلا قتل عام 1745ء میں تکفیری وہابی مکتبہ فکر کے بانی محمد بن عبد الوہاب نے کیا کہ جس میں 17000 عرب سنی مسلمان قتل کئے گئے۔

اس میں نہ ایران ملوث تھا اور نہ کوئی شیعہ۔۔۔

1903ء میں عبد العزیز بن آل سعود نے سنی قبیلے مطیر کے 160 بیگناہ مسلمانوں کو قتل کیا۔۔۔

1904ء کے اوائل میں عبدالعزیز بن آل سعود نے قبیلہ شمر کے 800 بیگناہ سنی مسلمانوں کا قتل عام کیا۔۔۔

1904ء کے اواخر میں عبد العزیز بن آل سعود نے پھر اسی قبیلے کے 2500 بیگناہ سنی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔۔۔

1914ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران یہودی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے برطانوی اور فرانسیسی استعمار کے ساتھ ساز باز کرکے خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ عبدالعزیز بن آل سعود نے حنفی سنی مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائیں۔۔۔

اسی یہودی ایجنڈے کی تکمیل میں 1917ء میں تقریبا 2 لاکھ سنی مسلمان آل سعود کے مظالم کی وجہ سے لقمہ اجل بنے۔۔۔

یاد رہے کہ یہاں بھی ایران اور کوئی شیعہ ملوث نہیں پایا گیا۔

1918ء میں عبد العزیز بن آل سعود کی فوج نے سرزمین حجاز کا قبضہ حاصل کرنے کے لئے ایک ہزار سے زائد سنی مسلمانوں کو قتل کیا۔۔۔

1920ء میں آل سعود کی فوج نے کویت کے مختلف قبائل اور بادیہ نشینوں سمیت 3000 کے لگ بھگ عرب مسلمانوں کا قتل عام کیا۔۔۔

1920ء سے 1930ء تک عسیر کے علاقے پر قبضہ کرنے کے لئے 3500 سنی مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔۔۔

مختلف اعداد و شمار کے مطابق عبد العزیز بن آل سعود کی فورسز نے 45000 کے قریب سنی مسلمانوں کا جس بیہمانہ اور سفاکانہ انداز میں قتل عام کیا اس کی مثال عرب قبائل کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

1930ء سے 1941ء کے درمیان برطانوی اور فرانسیسی استعمار کے ساتھ مل کر عراق میں خلافت اسلامیہ کی بحالی کے مقصد سے اٹھنے والی تحریک کو کچلنے کے لئے 8000 عراقی مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔۔۔

1940ء میں آل سعود نے تیل کی آمدنی کے ذریعے مالی معاونت کرتے ہوئے العلمین نامی جنگ میں برطانوی اور فرانسیسی استعمار کے ہاتھوں 12000 سے زائد مصری عربی مسلمانوں کے  قتل سے اپنے ہاتھ رنگین کئے۔۔۔

کیونکہ اسی وجہ سے جرمنی نے اٹلی سے مطالبہ کیا تھا کہ سعودیہ میں موجود تیل کے کنوؤں پر بمباری کرے جو برطانیہ کو مفت تیل دے رہا ہے۔۔۔
یہاں بھی کسی قسم کی ایرانی اور شیعہ مداخلت نظر نہیں آتی ہے۔

1948ء میں عبد العزیز بن آل سعود کے دستخط شدہ معاہدے کے تحت فلسطین کو یہودی مسکینوں کے حوالے کر دیا گیا۔

اس معاہدے کی وجہ سے 1948ء سے لیکر 2017ء تک دو میلین سے زائد فلسطینی مسلمان یہودیوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں، جب کہ 12 میلین سے بھی زیادہ پوری دنیا میں بے گھر اور دربدر ہو چکے ہیں۔

یاد رہے اس سارے معاملے میں  نہ ایران ملوث ہے نہ کوئی شیعہ۔۔۔

1956ء میں مصر پر اسرائیلی، برطانوی اور فرانسیسی مشترکہ حملے کی سازش میں بھی آل سعود شریک تھے اور اسی طرح پھر فلسطین کے شہر خان یونس کا ہولناک سانحہ پیش آیا، کہ جس میں 500 سنی مسلمانوں کو یہودیوں نے بے دردی سے ذبح کیا، جس میں سعودیہ کی خیانت کا انکشاف بعد میں مصری عرب لیڈر جمال عبد الناصر نے بھی کیا۔

یہاں بھی ایران یا کسی شیعہ کا ذکر نہیں۔۔۔

1958ء میں برطانیہ اور خلیجی ممالک کے تعاون سے عراق میں بادشاہت کا خاتمہ کرنے والے صدر کرنل عبد الکریم قاسم کے خلاف کودتا کیا گیا جس کے نتیجے میں صدر عبد الکریم قاسم کی پھانسی کے ساتھ ساتھ 30 ہزار سے زائد عراقی مسلمان قتل ہوئے۔

اس دوران بھی ایران اور شیعہ کا ذکر نہیں ملتا۔

1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر، اردن، شام، عراق اور لبنان سمیت دیگر عرب ممالک اس لیے شکست سے دوچار ہوئے کہ سعودیہ عین موقع پر پیچھے ہٹ گیا اور یوں 25 ہزار شہید اور 50 ہزار زخمیوں کا سبب سعود عرب بنا۔

البتہ اسی شکست کے پیش نظر مراکش کے دارالحکومت خرطوم میں ہونے والے عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں مالی امداد کی۔۔۔

اب یہاں بھی نہ ایران نہ کوئی شیعہ نظر آتا ہے۔

1973ء میں سعودی حکمران ملک فیصل (جنہوں نے امریکہ اور یورپ کو تیل کی ترسیل روک دی تھی) کی سربراہی میں مصر اور شام نےعرب ممالک کی حمایت سے اسرائیل کے خلاف جنگ چھیڑ دی لیکن جنگ کے اختتام کے ساتھ ہی امریکی اور اسرائیلی سازش کے تحت آل سعود کے ہی بعض افراد کے ذریعے ملک فیصل کو تیل کی ترسیل روکنے کے جرم میں راستے سے ہٹا دیاگیا۔

یہاں بھی ایران اور کسی شیعہ کی مداخلت نظر نہ آئی۔۔۔

1979ء میں تہران میں موجود اسرائیلی سفارتخانے کو فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اسرائیلی پرچم کی جگہ فلسطینی پرچم لہرایا جاتا ہے۔

البتہ یہاں سعودی عرب کھل کر کہتا نظر آتا ہے کہ ایران عرب ممالک کے مسائل میں مداخلت کر رہا ہے۔

 1980ء میں امریکہ، اسرائیل، یورپ، سعودیہ اور خلیج فارس کے ساحلی ممالک کی مالی اور عسکری امداد کے بل بوتے عراق نے ایران کے خلاف جنگ چھیڑی جو 8 سال تک جاری رہی۔

اس جنگ میں 1 میلین سے زائد مسلمان مارے گئے، جس کا اعتراف کویت پر حملے کے بعد خود صدام حسین نے کیا تھا کہ ایران کے خلاف جنگ پر مجھے امریکی اسرائیلی اشاروں پر چلتے ہوئے بھڑکانے والا سعودیہ تھا۔۔۔

ایران کے خلاف جنگ کا سبب ایران کی فلسطین حمایت پالیسی تھی۔

1988ء میں ایران عراق جنگ کے خاتمے پر سعودی عرب القاعدہ نامی بدنام زمانہ تنظیم کی بنیاد رکھتا ہے اور اسے افغانستان منتقل کرتا ہے کہ جس کے مظالم کے نتیجے میں 3 میلین کے قریب افغانی مسلمان لقمہ اجل بنتے ہیں۔

اس سعودی سازش میں بھی کوئی شیعہ اور ایران کہیں نظر نہیں آتا۔

1990ء میں سعودیہ اور خلیج فارس کے ساحلی ممالک عراق کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو صدام حسین کویت پر دھاوا بول دیتا ہے جس میں 1 ہزار سے زائد کویتی شہری قتل ہو جاتے ہیں۔

یہاں بھی نہ ایران تھا اور نہ کوئی شیعہ۔۔۔

 1990ء میں امریکہ کی قیادت میں سعودی اور خلیج فارس کے ممالک کی مالی امداد سے کویت کی آزادی کیلئے درع الصحراء نامی آپریشن شروع کیا گیا اور 1991ء میں عاصفة الصحراء نامی فوجی کارروائی شروع کی جاتی ہے جس میں 2 لاکھ سنی عرب مسلمان قتل ہو جاتے ہیں۔

حسب سابق یہاں بھی ایرانی یا کسی شیعہ کی مداخلت کا سراغ نہیں ملتا۔۔۔

1992ء میں سعودی فورسز قطری سرحد پر حملہ آور ہوتی ہیں اور 50 سنی مسلمانوں کو قتل کرتی ہیں۔

 10 سال سے مسلسل پابندیوں کے بعد 2003ء میں امریکہ سعودی ریالوں کے بل بوتے پر عراق کی آزادی کے نام پر عراق پر حملہ آور ہوتا ہے اور 10 سال تک امریکی تسلط میں مسلسل ظلم و ستم کا بازار گرم رہتا ہے جس میں 1 میلین سے زائد عراقی مسلمان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔۔۔

یہاں صدام کی حکومت کے خاتمے سے عراقی شیعہ اور کرد  فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں کیونکہ یہی دو گروہ تھے جو صدام کے دور حکومت میں مسلسل صدامی ظلم کا نشانہ بنتے رہے۔

2004ء سے لے کر 2017ء تک وہابی تکفیری مذہب کی مختلف جہادی تنظیموں نے جس ظالمانہ اور وحشیانہ انداز سے عراقیوں کا قتل عام کیا اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔

ذبح، مساجد اور بازاروں سمیت دیگر عوامی مقامات پر خود کش دھماکوں سے تباہی ان کے جرائم کے نمونے ہیں۔

اس ساری تباہی میں نہ ایران ہے نہ کوئی شیعہ بلکہ صرف اور صرف تکفیری وہابی تنظیمیں ہیں۔

2006ء میں اسرائیل، امریکی اور سعودی تعاون سے لبنان کے خلاف اس لئے جنگ چھیڑتا ہے کیونکہ ایران حزب اللہ کو سپورٹ کرتا ہے۔

2008ء میں سعودی خاموشی کے سائے میں اسرائیل غزہ پر حملہ آور ہوتا ہے کیوں؟؟؟؟

اس لئے کہ اسرائیل کی مزاحمت حماس کرتی ہے اور حماس کو ایران سپورٹ کرتا ہے۔

2009ء میں أرض محروقہ نامی فوجی کارروائی کے ساتھ سعودیہ یمن پر حملہ کرتا ہے۔

2011ء میں سعودی فورسز بحرین میں اٹھنے والی پرامن عوامی تحریک کو کچلنے کے لئے بحرین کے امور میں مداخلت کرتے ہوئے اس میں داخل ہوتی ہیں۔

2011ء میں سعودی سکیورٹی فورسز قطیف کے علاقے پر دھاوا بولتی ہیں جس میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کی تفصیلات آج تک منظر عام پر نہیں آ سکیں۔

2012ء میں اسرائیل ایک بار پھر ایران کی حماس کو سپورٹ کا بہانہ بناتے ہوئے غزہ پر حملہ آور ہوتا ہے، اس پر سعودی عرب خاموش تماشائی بنا رہتاہے، بلکہ اماراتی میڈیکل ٹیم فلسطینیوں پر حملے کے لئے صیہونی فورسز کو خفیہ معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔

 2012ء اور 2017ء کے درمیان وہابی دہشت گرد تنظیموں نے عراق، شام، لیبیا، مصر اور یمن سمیت دیگر مسلم ممالک میں مکمل آزادی کے ساتھ مسلمان، مسیحی اور دیگر اقلیتوں کا ذبح کر کے، جلا کر، تلوار سے سرقلم کر کے، اور خودکش دھماکوں جیسی وحشیانہ کارروائیوں کے ذریعے بے رحمانہ قتل عام کیا۔
یادرہے کہ یہ سب کارستانیاں سلفی مسلک وہابی تنظیموں کی ہیں نہ کہ ایران یا کسی شیعہ تنظیم کی۔۔۔

2015ء میں سعودی فوج اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یمن کے خلاف ایک بڑی جنگ شروع کر دیتی ہے جس میں اب تک 15 ھزار یمنی مسلمان قتل ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے جب کہ بھوک اور وبائی امراض کی وجہ سے لقمہ اجل بننے والے اور کئی ارب ڈالروں کا مالی نقصان الگ ہے۔

2017ء میں سعودی عرب قطر کا محاصرہ کرتا ہے اور ابھی تک اس محاصرہ کے اسباب واضح نہیں کرسکا ہے۔

 اب جب کہ عراق اور شام میں سلفی تکفیری دہشتگرد گروپ داعش آخری سانسیں لے رہا ہے جو سلفی، استعماری فکری، مالی اور تسلیحاتی امداد کے نتیجے میں منصہ شہود پر آیا تھا، اس سے علاقے میں سعودی مفادات اور ناپاک صیہونی عزائم خطرے سے دچار ہوئے ہیں۔

لہذا سعودی عرب نے نیا ڈرامہ رچاتے ہوئے لبنانی وزیر اعظم سعد حریری سے استعفی دلوایا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس نے حزب اللہ اور ایران کو دھمکیاں بھی دی ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ استعماری، صیہونی اور سعودی گٹھ جوڑ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی اپنی تاریخ دہرانے کے لئے کیا کارروائی کرتا ہے۔

یہ وہ تمام معلومات ہیں جو تمام عربی، مغربی (یورپی) تحقیقات اور میڈیا رپورٹس میں موجود ہیں اور تاریخی اعتبار سے قابل وثوق بھی ہیں۔

اب قارئین سے اپیل ہے کہ خطے میں مسلمانوں اور عرب دنیا کے لئے شیعہ اور ایرانی خطرے سے متعلق مزید غور و حوض کے ساتھ تحقیق کریں۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری