فیض آباد دھرنے پر خفیہ اداروں کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار


فیض آباد دھرنے پر خفیہ اداروں کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار

فیض آباد دھرنے پر عدالت نے خفیہ اداروں کی رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے اسے آئندہ سماعت پر دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی، جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی،اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت میں پیش ہوئے ۔

سماعت کے دوران وزارت دفاع اور وزیرداخلہ کی جانب سے دھرنے سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی، جس پر عدالت نے دونوں خفیہ اداروں کی رپورٹس کے بارے میں مایوسی کااظہار کیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ خفیہ اداروں کی رپورٹس پر مایوسی ہوئی ہے، ان میں کوئی تفصیل نہیں ہے ، رپورٹس دوبارہ پیش کی جائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ دھرنے کے پیچھے کون ہے اور اس کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، دھرنے میں کون کون ہیں؟ کہیں غیر ملکی تو شامل نہیں؟ دھرنے والوں کو غیر ملکی فنڈنگ تو حاصل نہیں، انٹیلی جنس اپنا کام ٹھیک نہیں کر رہی ، آئی ایس آئی ملک کا مضبوط ادارہ ہے اسے ڈیلیور کرنا چاہیئے تھا۔

جسٹس قاضی فائر عیسی کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس نبی کا اسوہ حسنہ موجود ہے لیکن اس پر کوئی عمل پیرا نہیں ، ہم پھر بھی دھرنے والوں کو امن کا پیغام بھیج رہے ہیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا از خود نوٹس کیس کی مزید سماعت تیس نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئی بی اور آئی ایس آئی کے اعلیٰ افسران کو بھی طلب کرلیا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آئندہ سماعت پر آئی بی اور آئی ایس آئی کے اعلیٰ حکام موجود ہوں تاکہ وہ دیکھ سکیں یہ ایمان اتحاد اور تنظیم والا پاکستان نہیں ہے۔

فیض آباد دھرنے پر جسٹس قاضی فائز کے سخت ریمارکس

بینچ میں شامل جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ  اسلام تو راستے میں پڑا پتھر ہٹانے کی ہدایت کرتا ہے،کیا آمدورفت کی آزادی اسلام میں شامل نہیں ہے، غلطی تو مجھ سے بھی ہوسکتی ہے مگر مجھے بضد تو نہیں ہونا چاہئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسکرانا بھی صدقہ ہے مگر مجھے کوئی مسکراتی شخصیت نظر نہیں آتی، کیونکہ لوگوں نے قرآن پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، اس سارے معاملے پر میرا دل چکنا چور ہوگیا ہے، کیا پیارے نبی کی سیرت سے ہم نے سبق سیکھا ہے۔سماعت کے موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ساری صورت حال میں ہمیں ایمان، اتحاد اور تنظیم نظر نہیں آرہی ہ،کیا یہ چیز معاشرے کو تباہ نہیں کررہی، دھرنے میں گالی گلوچ کی زبان استعمال کی جارہی ہے کیا معاشرہ اس طرح چلتا ہے، حکومت اور احتجاج کرنے والے بنیادی نکتہ مس کررہے ہیں،اختلافات ہوتے رہتے ہیں، کیا عدالتیں بند ہوگئی ہیں کہ اپنا معاملہ سڑکوں پر لے جایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ سارے معاملے پر ایجنسیاں کیوں خاموش ہیں،ایجنسیوں پر اتنا پیسہ خرچ کرتے ہیں، ان کا کردار کہاں ہےاس موقع پر اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بتایا جائے کہ دھرنے کے باعث کتنا خرچہ آرہا ہے، انہیں سہولیات کون فراہم کررہا ہے، دھرنے کے شرکا کے پاس میگا فون اور کرسیاں کہاں سے آئیں عدالت کو اس سے آگاہ کیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب دھرنے کے شرکا لاہور سے روانہ ہوئے تو حکومت پنجاب نے قبل ازوقت اقدامات کیون نہیں کئے۔

سوشل میڈیا کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ دھرنے سے متعلق سوشل میڈیا پر سب چل رہا ہے لیکن پیمرا نے نوٹس نہیں لیا ساتھ ہی بتایا جائے کہ اس معاملے کو اتنی میڈیا کوریج کیوں مل رہی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰکا کہنا تھا کہ لوگوں کوتکلیف ہورہی ہے،ایک حوالہ دے دیں کہ راستہ بند کردیاجائے، اس طرح کے حالات میں دشمنوں کے لئے بڑا آسان ہے کہیں آگ لگادے اور ہم آپس میں لڑتے رہیں ، بس اپنی شہرت کےلیے سب ہورہاہے تاکہ نام آجائے۔اس موقع پر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ نے پرچے کتنے کاٹے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 18کیسز درج کیے ،169لوگ گرفتار ہیں،چہلم حضرت امام حسین کا وقت تھاجب وہ وہاں آکر بیٹھے،ہم نہیں چاہتے کہ خون خرابا ہو۔

ازخود نوٹس کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسینے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایمبولینس کوراستہ دینے سے ہماری ضد بہت بڑی لگی ، جس کے باعث ایک بچہ فوت ہوا،  یہ صورت دھرنے والوں کے دل میں سماجاتی تو دھرنے والے اٹھ کر چلے جاتے، کیونکہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے،ان تمام حالات میں جس کا بچہ مر گیا اس پر کیا بیت رہی ہو گی۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری