زرعی یونیورسٹی حملے کی وجہ نامناسب سیکورٹی اقدامات ہیں، رحیم اللہ یوسف زئی


زرعی یونیورسٹی حملے کی وجہ نامناسب سیکورٹی اقدامات ہیں، رحیم اللہ یوسف زئی

سینئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی نے نا مناسب سیکیورٹی اقدامات کو پشاور میں زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے ہاسٹل پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی وجہ قرار دے دیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی جانب سے اس جگہ کو نشانہ بنایا گیا جو ایک آسان ہدف تھا اور ممکن ہے کہ یہاں سیکیورٹی کے مناسب انتظامات نہ ہوں جس کی وجہ سے وہ اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔

انھوں نے کہا کہ 'اگرچہ پولیس کا یہ مؤقف ہے کہ حملہ آور برقع پوش تھے، لیکن ہمارے سیکیورٹی اداروں کو ان حالات میں ہر وقت تیار رہنے کی ضرورت ہے، کیونکہ سرکاری عمارات ہوں یا پھر تعلیمی ادارے انہیں کسی بھی وقت دہشت گرد نشانہ بنا سکتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کارروائیوں میں عام طور پر دہشت گردوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کرنا نہیں، بلکہ یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ حکومت مکمل طور پر بے بس ہے جبکہ یہ لوگ اب بھی حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہونے سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے بیان پر بات کرتے ہوئے رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ سب سے پہلی ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ سیکیورٹی کو یقینی بنائے تاکہ باہر سے کوئی بھی آکر ایسی کارروائیاں نہ کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے بلوچستان میں بھی دہشت گرد حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے، لہذا اگر ان کے سہولت کار ہمارے علاقوں میں ہی موجود ہیں تو ہمیں اپنی انٹیلی جنس کے نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔

تاہم، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گرد جن علاقوں کو نشانہ بناتے ہیں وہ افغانستان کی سرحد سے قریب ہیں اور ایسے میں پاکستان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ سرحد کی دوسری جانب جاکر ان کے خلاف کارروائی کرسکے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت افغانستان میں صرف تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد ہی نہیں، بلکہ جماعت الاحرار، داعش اور ساتھ ہی بلوچ عکسریت پسند بھی وہاں سے منصوبہ بندی کررہے ہیں، جبکہ افغانستان پہلے اس بات کو تسلیم نہیں کرتا تھا، مگر حال ہی میں چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایسے علاقوں تک خود ان کی حکومت کی بھی رسائی نہیں جہاں دیشت گرد موجود ہیں۔

رحیم اللہ یوسف زئی نے ایک اور مسئلے کی جانب روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حالیہ مہینوں میں افغانستان میں ڈرون حملوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس کا نقصان پاکستان کو اُس صورت میں ہوسکتا ہے جب یہ دہشت گرد ان ڈرون حملوں سے بچنے کے لیے یہاں کا رخ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستان اور افغانستان دونوں مل کر کوئی مؤثر حل نہیں نکالیں گے، اُس وقت تک ایسی کارروائیاں ہوتی رہیں گی اور جہاں تک امریکا کی بات ہے تو اس کی افواج افغانستان میں موجود ہے، مگر اس کے باوجود بھی وہ تعاون نہیں کرتا تو واحد حل دونوں ملکوں کو ہی نکالنا پڑے گا۔

خیال رہے گزشتہ روز پشاور میں زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے ہاسٹل پر مسلح دہشت گردوں کے حملے میں 9 افراد ہلاک اور 35 زخمی ہوگئے تھے۔

حملے کے فوری بعد پاک فوج، فرنٹیئر کورپس (ایف سی) اور پولیس اہلکاروں نے علاقے کا محاصرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق حملہ آوروں نے پشاور کی زرعی یونیورسٹی کے سامنے ڈائریکٹوریٹ جنرل (ڈی جی) ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر کی عمارت پر حملہ کیا تھا جس کے بعد پولیس کی بھاری نفری فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچی تھی۔

حملے میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے قبضے سے 3 خودکش جیکٹس، 8 دستی بم، 2 آئی ای ڈیز بم اور متعدد کلاشنکوف کے علاوہ دیگر دہشت گردی کا سامان بر آمد کیا گیا۔

حملے کے عینی شاہد یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ عام دنوں میں ہاسٹل میں 400 کے قریب طالب علم موجود ہوتے ہیں لیکن آج عید میلاد النبی کی چھٹی کی وجہ سے صرف 150 طالب علم ہاسٹل میں موجود تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب دہشت گرد ہاسٹل میں داخل ہوئے تو طالب علم انہیں دیکھ کر بھاگنے لگے جن میں سے کچھ دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر زخمی ہوگئے جبکہ کچھ نے ہاسٹل کی کھڑکیوں سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی۔

حملے کے بعد ایگری کلچرل انسٹیٹیوٹ کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا، جس کے بعد انسٹیٹیوٹ کے طلبہ سامان لے کر گھروں کو روانہ ہوگئے۔

زرعی ڈائریکٹوریٹ پر حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سوات گروپ نے قبول کرلی۔

واضح رہے کہ رواں برس 15 جون کو پاک فوج نے خیبر ایجنسی کے تمام علاقوں میں دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لیے آپریشن خیبر 4 کا آغاز کیا تھا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری