اسلام کیخلاف یہود و نصٰریٰ متحد لیکن مسلمان کیا ۔۔۔ ؟؟؟


اسلام کیخلاف یہود و نصٰریٰ متحد لیکن مسلمان کیا ۔۔۔ ؟؟؟

اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ امت اسلامیہ کا شیرازہ منتشر کیا گیا ہے، بدعت، شرک، کفر جیسے الزامات کی بوچھاڑ ایک دوسرے پر اور ایک دوسرے کے اعمال پر لگائے جارہے ہیں، کوئی حنفی، کوئی شافعی، کوئی مالکی، کوئی حنبلی، کوئی جعفری، غرض امت اسلامیہ مختلف گروہوں میں بٹتی جارہی ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ امت اسلامیہ کا شیرازہ منتشر کیا گیا ہے مسلمان مختلف مسلکی اختلافات میں بٹ چکے ہیں بدعت، شرک، کفر اور جہالت کے نام پر کچھ نام نہاد مسلمانوں نے اپنی دکانیں سجائے رکھے ہیں۔ بدعت، شرک، کفر جیسے الزامات کی بوچھاڑ ایک دوسرے پر اور ایک دوسرے کے اعمال پر لگائے جارہے ہیں، کوئی حنفی، کوئی شافعی، کوئی مالکی، کوئی حنبلی، کوئی جعفری، غرض امت اسلامیہ مختلف گروہوں میں بٹتی جارہی ہے۔ مسجدیں تعلیمی ادارے اور دیگر اہم اور مقدس مقامات مسلک کے ناموں کے ساتھ منسوب کئے گئے ہیں ایک مسلک کا ٹھیکہ دار اپنے چیلوں کو دوسرے مسلک کے مسجد میں نماز پڑھنے سے روکنے کیلئے فتویٰ جاری کر رہا ہے حنفی مسلک کا پیروکار ایک کلومیٹر دور نماز اپنے مسلک کے نام پر منسوب مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے جارہا ہے اور وہاں کا شافعی حنبلی مالکی یا جعفری پیروکار وہاں کی مسجد سے منھ موڑ کر اپنے مسلک کی مسجد میں نماز ادا کرنے کیلئے آرہا ہے۔ ایک دوسرے کو کفر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور ہرطرف مسلم ممالک میں بے چینی بدامنی اور خون خرابے کا ماحول گرم ہے۔

اس کے مقابلہ میں عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کے سخت ترین جانی دشمن ہونے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ دشمنان اسلام کا مقابلہ مسلمانوں کے کسی ایک طبقہ فکر سے نہیں، جعفری حنفی شافعی مالکی یا حنبلی سے نہیں بلکہ اسلام کے ماننے والوں سے ہے اس کا ماننے والا چاہے شیعہ ہو یا سنی جس کی مثال ہمارے سامنے واضح ہے کہ فلسطین سنی اکثریتی والا عرب ملک تھا، عیسائیوں اور دنیا بھر کے مسلم مخالف مسلکوں نے ہٹلر کے طوفان سے بچے یہودیوں کو ایک ایک کرکے فلسطین کی سرزمین پر اکٹھا کیا اور نہ فقط یہودیوں بلکہ دشمنان اسلام کے فرد فرد نے ان کی بھر پور مدد کرکے اسرائیل نامی غاصب ملک کو وجود بخشا چونکہ اسلامی مملکتوں کے بیچوں بیچ دشمن قوتوں کا کوئی اڈہ نہیں تھا اسی لئے اسی سرزمین کو سوچی سمجھی اور رچی رچائی سازش کے تحت انتخاب کرلیا۔ اسی طرح ایران اگرچہ شیعہ اکثریتی والا ملک تھا وہاں امریکہ اور اس کے حواریوں نے بالواسطہ اور بلا واسطہ وقتاً فوقتاً مداخلت کی اور ملت ایران پر ظلم و تشدد کے پہاڑ ڈھادئے، ہزاروں علمائے کرام دانشور حضرات اور لاکھوں جوانوں کے خون کا دریا بہادیا گیا، انقلاب سے پہلے بھی اور انقلاب اسلامی کے بعد بھی۔ ایران میں ہونے والے خون آشام معرکوں میں امریکہ اور اس کے حواریوں کا ہاتھ تھا۔ بات افغانستان کی کی جائے یا شام، عراق، یمن، بحرین اور نائجیریا کی یہاں تک کہ پاکستان کی ہر جگہ امریکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ مسلمانوں کا خون بہانے میں پیش پیش رہا۔ کسی جگہ مسلمان کا ہاتھ ڈالروں میں خرید کر وہاں کے مسلمانوں کا تختہ مشق کروا دیا کسی جگہ خود اپنی فوج اتار کر بے گناہ مسلمانوں کو ابدی نیند سلا دیا۔

یہ بات ہر ایک مسلمان کو مان لینی چاہئے کہ امریکہ کھبی بھی مسلمان دوست نہیں بن سکتا ہے اور نہ کبھی بنا ہے بلکہ اس نے وقت وقت پر مختلف حیلوں، بہانوں، پروپیگنڈوں، حربوں اور فریب سے عالم اسلام کو پسپا کرنے کی کوشش کی۔ صاف اور سادہ لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ ایک مسلم مخالف طاقت ہے جو اسی فکر میں لگا رہتا ہے کہ کہی امت مسلمہ کی صفوں کے درمیان اتحاد پیدا ہوجائے تو امریکہ کو سر پر ذلت کی چادر اوڑھ لینی ہے اور تاناشاہی بربریت اور ظلم و جور پر استوار حکومت کا خاتمہ ہوجائیگا لیکن بدقسمتی امت مسلمہ کی یہ ہے کہ مسلکوں کے نام پر کچھ خود غرض افراد مسلمانوں کی صفوں کے درمیان پیدا ہوگئے ہیں جو اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں اور اسلام دشمن قوتیں ان کے اس آگ پر مٹی کا تیل چھڑک رہے ہیں اور بھرپور طریقے سے ان کی رہنمائی کررہے ہیں۔

مسلمانان عالم کی ایک اور بدنصیبی یہ ہے کہ وہ سنی سنائی ہوئی داستانوں اور افواہوں پر یقین کرتے ہیں خود اس بارے میں کچھ تحقیق نہیں کرتے کہ بات کس حد تک صحیح ہے۔ یہ اختلافات کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ایک خود غرض نام نہاد مسلمان چاہے وہ سنی ہو یا شیعہ، اسلامی لبادہ اوڑھ کر بھاری اجتماع میں لوگوں کو ایک دوسرے مسلک کے ماننے والوں کے خلاف بھڑکا رہا ہے اور اس اجتماع سے نکلنے والے ہزاروں افراد بنا کسی تحقیق کے ان کی شیطانی باتوں کو پھیلا رہے ہیں اور اختلافات کا یہ آگ جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتا ہے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مسلمان پسپا ہوتا جارہا ہے۔

ہمارے کچھ نام نہاد ملاوں نے عالم اسلام کو تفرقہ بازی منافرت اور آپسی اختلافات میں مشغول رکھا ہے اور اس تفرقہ کی وجہ سے مسلمان اقتصادی لحاظ سے کمزور ہوتا جارہا ہے۔ دشمنان اسلام کی یہ سب سے بڑی خواہش اور جیت ہے کہ امت اسلامیہ اقتصادی لحاظ سے کمزور ہوجائے جس کے بعد اس کو پیچھے کی جانب دھکیل دینے میں آسانی ہوگی۔

عالم اسلام کے لئے سرزمین حجاز ایک مقدس سرزمین ہے اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن مسلمان ایک لمحہ تعصب مسلک منافرت اور اختلاف کو ایک طرف رکھ کر غور کریں اور دیکھے کہ اس سرزمین کا تقدس کتنا پامال ہوتا جارہا ہے، بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے والا، مسلمان ممالک کی امریکہ داخلے پر پابندی عائد کروانے والا امریکی صدر اس سرزمین پر شیخ ٹرمپ بن کر اسلامی کانفرنس کی سربراہی کررہا ہے اور اسی سرزمین پر 300 سینما جن کی اسلام نے شدید مذمت کی ہے، حکومت نے دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔

ذرا غور کیجئے ایران میں بھی جب اس طرح کی اسلام دشمن سرگرمیاں تھیں، پہلوی حکمران بظاہر نام نہاد شیعہ تھے لیکن علماء نے اس مردود کو رد کیا، شیعہ قوم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی نہ فقط شیعہ بلکہ دنیا کے گوشہ و کنار میں اسلام سے حقیقی محبت رکھنے والوں نے اس کے خلاف نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے مملکت ایران کے خلاف آواز اٹھائی اور ایران کے خلاف نفرت کا اظہار کیا۔ ہم یہ قطعی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ اس وقت کے سنی مسلمانوں نے اگر رضا شاہ پہلوی کے خلاف آواز اٹھائی تو وہ مشہد مقدس یا ایران کے دیگر مقدس مقامات کے خلاف تھے اور اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، نہیں ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ اسلامی مملکت میں اسلام کی تقدس کی بحالی چاہتے تھے۔

اسی طرح اگر دنیا کا کوئی مسلمان کسی سعودی حکمران یا سعودی نظام حکومت سے بیزاری کا اظہار کررہا ہے تو میں قسم کھا کے کہہ رہا ہوں واﷲ باﷲ وہ اس مقدس سرزمین کے خلاف نفرت اور بیزاری نہیں اور نہ ہی مکہ معظمہ یا مدینہ پاک پر قبضہ یا حملہ کرنا چاہتا ہے بلکہ اس کا مقصد اور ہدف اس مملکت میں اسلامی قوانین و قواعد کی پاسداری ہے۔ اسلامی نظام حکومت ہے سنی مسلمانوں کو یہ بات مان لینی چاہئے کہ ابتدا سے لیکر انتہا تک سنی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ شیعہ مسلمان بھی اس سرزمین کے پاسدار رہے ہیں اور رہیں گے لیکن سعودی حکمرانوں کو دنیا بھر کے مسلمانوں کا پاسدار ہونا چاہئے اور امت اسلامیہ کے حکمرانوں کے لئے رول ماڈل ہونا چاہئے۔

دنیا میں جہاں بھی ظالم سر نکالے وہ چاہے نام نہاد سنی ہو یا شیعہ اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیئے اور مظلوم کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا لازمی ہے چاہے جس مسلک اور مکتب کا ماننے والا ہو۔ امت اسلامیہ کی بھلائی اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے جس طرح ایک دوسرے کی جانوں کے سخت ترین دشمن یہود و نصٰریٰ مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئے ہیں اسی طرح امت اسلامیہ کو بھی یک جٹ ہوکر اسلام مخالف طاقتوں کے خلاف بر سرپیکار ہونا چاہئے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا فیصلہ جس میں انہوں نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا امت مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی امریکی صدر نے کئی بار مسلم مخالف بیانات جاری کئے نہ فقط ٹرمپ نے بلکہ سابقہ امریکی صدور کی بھی اسلام کے خلاف یہی روایت رہی ہے لیکن یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرکے ٹرمپ نے واضح کردیا کہ مسلمانوں کے خلاف یہود و نصٰریٰ ایک ہوگئے ہیں۔

ٹرمپ کے اس بیان کے خلاف اگرچہ عالم اسلام کے طول و ارض میں امریکہ اسرائیل اور ٹرمپ مخالف احتجاجی جلوس نکالے گئے لیکن اس سے بڑھ کر یہ بات ہوسکتی تھی کہ اگر اسلامی حکمران اس کے خلاف متحد ہوکر آواز اٹھاتے۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ دنیائے اسلام کیلئے او آئی سی نے امریکہ و اسرائیل کو صرف اور صرف بددعا دینے پر اکتفا کیا۔ بددعا دینا تو اچھی بات ہے جو اسلام کے حقیقی دردمند آج تک دیتے آئے ہیں وہ چاہے سنی مسلمان ہو یا شیعہ، انہوں نے تو اسرائیل کے وجود میں آنے سے ہی اس کو بددعا دینا شروع کردیا لیکن بددعا دینے کے ساتھ ساتھ او آئی سی کی اور بھی ذمہ داریاں تھیں وہ متحد ہوکر امریکہ پر دباو بھی ڈال سکتے تھے یا ان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی بات کرسکتے تھے لیکن ایسا کرنے سے انہوں نے کیوں ڈر محسوس کیا ؟ واﷲاعلم ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اربوں کی تعداد میں مسلمان اسرائیل جیسی ایک چھوٹی سی غاصب صیہونی ریاست کی تاناشاہی اور بربریت کو روکنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

عالم اسلام کے لئے ٹرمپ کا احمقانہ فیصلہ لمحہ فکریہ ہے کہ مسلمانان عالم کو کس قدر پسپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لہذا امت اسلامیہ کو چاہئے کہ وہ آپس میں متحد ہوکر اسلام کی بھلائی اور مسلمانوں کی کامیابی و ترقی کے لئے اقدامات کریں اور مسلکی منافرت و اختلافات کو ہوا دینے والے خود غرض افراد کو چن چن کر اسلامی صفوں سے نکال باہر کریں۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری